تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مسلمان اپنے مذہب پر قائم اور جزیرہ نمائے اندلس میں موجود پائے جاتے تھے۔ ۹۰۴ھ میں ایک عام حکم جاری کیا گیا کہ ہر ایک شخص جو مسلمان ہے وہ دین عیسوی قبول کر لے ورنہ اس کو جہاں کہیں پایا جائے گا قتل کر دیا جائے گا۔ مسلمانوں نے اس حالت میں شہروں اور میدانوں کو چھوڑ کو پہاڑوں میں پناہ لی اور ہر قسم کی اذیت برداشت کی۔ مگر دین اسلام کو چھوڑنا پسند نہ پیدا کریں‘ اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کو بھول جائیں اور دین اللہ سے انحراف کریں۔ یہ شاہ عبداللہ اور مسلمانوں ہی کی بد اعمالیاں تھیں جنہوں نے ان کو اس مقام پر لا کھڑا کیا تھا۔ ذَالِکَ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسْ! ۱؎ اس کے باوجود عیسائی اور بہت سے دوسرے غیر مسلم یہ کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے ذریعے سے پھیلا ہے۔ وہ اگر اپنی تاریخ پر سنجیدگی اور انصاف کے ساتھ نگاہ ڈالیں تو انہیں بہ خوبی ایسے لا تعداد واقعات دکھائی دیں گے جہاں عیسائی حملہ آوروں نے مفتوح اقوام خصوصاً مسلمانوں کو زبردستی عیسائی بنایا ہے یا بنانے کی کوشش کی ہے۔ کیا۔ بعض مسلمانوں کو عیسائیوں نے پکڑ کر زبردستی بپتسمہ دیا۔ اور ان کے بچوں کو عیسائی بنایا۔ یہ وہ لوگ تھے جو عربی النسل یا بربری نہ تھے۔ بلکہ ان کے باپ دادا اسی ملک کے قدیم باشندے تھے۔ اور اپنا عیسوی مذہب چھوڑ کر بخوشی مسلمان ہو گئے تھے۔ ان نو مسلم خاندانوں میں سے بھی کسی نے دین اسلام کا چھوڑنا گوارانہ کیا۔ اور وہ چھپ چھپ کر اپنے گھروں میں نمازیں پڑھتے تھے۔ بعض مسلمانوں پر عیسائیوں نے بظاہر یہ سب سے بڑی مہربانی کی کہ ان کو افریقہ چلے جانے کی اجازت دی۔ ان لوگوں کے لیے جہاز بھی فراہم کر دیئے۔ انھوں نے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ جو سب سے زیادہ قیمتی سامان جہازوں میں لادا تھا۔ وہ نایاب اور قیمتی کتابوں کے ذخائر تھے۔ مگر عیسائیوں نے ان جہازوں کو ساحل افریقہ تک پہنچنے سے پہلے سمندر کے اندر غرق کر دیا۔ اس طرح نہ صرف ذی علم مسلمانوں بلکہ نایاب کتب خانوں کو بھی سمندر کی تہ میں پہنچا کر اپنی شرافت و تہذیب اور علم پروری کا نہایت عجیب و غریب ثبوت بہم پہنچایا۔ مسلمانوں کو جس طرح اندلس میں چن چن کر قتل و برباد کیا گیا۔ اس کی مثال دنیا کے کسی ملک اور قوم میں دستیاب نہیں ہو سکتی۔ خلاصہ کلام یہ کہ چند سال کے عرصہ میں قسم کھانے کو بھی کوئی اللہ وحدہ لاشریک کا نام لینے والا سر زمین اندلس میں باقی نہ رہا۔ عیسائیوں نے سب ہی کو یا تلوار کے گھاٹ اتارا یا سمندر میں ڈبویا یا آگ میں جلا دیا۔ آج کل کے مسلمان اگر چاہیں تو اندلس کی یہ جگر خراش اور زہرہ گداز داستان پڑھ کر آپس کی نااتفاقی اور خانہ جنگی کے ہیبت ناک نتائج پر غور کر سکتے اور اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہو سکتے ہیں۔ تاریخ اندلس کو ختم کرنے سے پہلے یہ بات بھی بتا دینی ضروری ہے کہ سلطنت غرناطہ کی بربادی اور غرناطہ میں فردی نند کی حکومت کے قائم ہو جانے کے بعد بھی جزیرہ نمائے اندلس میں جابجا عرصہ دراز تک مختلف شہروں اور قصبوں اور پہاڑوں میں مسلمان پائے جاتے رہے اور ان کی گرفتاری و قتل کا سلسلہ اندلس میں برابر جاری رہا۔ کبھی دس بیس مسلمان جمع ہوئے تو انھوں نے مقابلہ بھی کیا اور لڑ کر مارے گئے۔ بعض اندلس کے شمالی پہاڑوں کی طرف بھاگ گئے اور وہاں بے سر و سامانی کے عالم میں ہلاک ہوئے۔ ان میں سے بعض بچ کر یورپ کے ملکوں کو طے کر کے ملک شام تک پہنچے۔ بعض مرنے والوں کے بچوں کو عیسائیوں نے اپنے قبضے میں لے کر عیسائی بنا لیا۔ اس طرح ملک فرانس کے جنوبی اور ملک اندلس کے شمالی حصوں میں عربی النسل خاندانوں کے