تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پریشان ہوا۔ اور اس خیال سے کہ شہر والوں کی بغاوت کہیں بنا بنایا کام نہ بگاڑ دے۔ ساٹھ روز پورے ہونے سے پہلے ہی یعنی ۱۲ ربیع الاول ۸۹۷ھ کو قصر الحمراء عیسائیوں کے سپرد کر دیا۔ فردی نند نے اندلس کے سب سے بڑے پادری منذورہ کو حکم دیا کہ وہ مع فوج پہلے شہر میں داخل ہو اور قلعہ حمراء کے سب سے بلند برج پر سے اسلامی نشان کو گرا کر صلیب نصب کر دے تاکہ اس نیک شگون کو دیکھتے ہی بادشاہ مع اپنی ملکہ ازبیلا کے شہر میں داخل ہو۔ جب سلطان ابو عبداللہ نے منذورہ کو قلعہ میں آتے دیکھا تو مع پچاس امیروں کے گھوڑے پر سورا ہو کر قلعہ سے باہر نکل آیا۔ اس وقت کی کیفیت کا تصور ہر شخص کر سکتا ہے۔ کہ شہر پر کیسی اداسی چھائی ہوئی ہو گی۔ مسلمانوں کے دلوں پر کیا گزر رہی ہو گی عیسائیوں کی خوشی کا حال بھی تحریر میں نہیں آ سکتا۔ عیسائی بادشاہ اور اس کی ملکہ فوجی لباس میں اپنے لشکر کے ساتھ صلیب کے بلند ہونے کا انتظام کر رہے تھے۔ سب کی نگاہیں قصر حمراء کے سب سے بلند برج کی طرف لگی ہوئی تھیں کہ سامنے سے ابو عبداللہ نے شاہ قسطلہ کے قریب آ کر کنجیاں حوالے کیں اور کہا کہ: ’’اے طاقتور بادشاہ ہم اب تیری رعایا ہیں۔ یہ شہر اور تمام ملک ہم تیرے سپرد کرتے ہیں۔ کیونکہ اللہ کی یہی مرضی تھی۱؎ ہم کو یقین ہے کہ تو رعایا کے ساتھ ہمیشہ شریفانہ اور فیاضانہ برتائو ۱؎ اللہ تعالیٰ تو یہ نہیں چاہتا تھا‘ وہ تو مسلمانوں کو غلبہ دینا چاہتا ہے لیکن اس کے لیے اس نے ایمان کو لازم قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو نہیں چاہا تھا کہ مسلمان عیش و عشرت میں ڈوب جائیں‘ غیر مسلموں کے ساتھ دوستانہ تعلقات روا رکھے گا‘‘۔ فردی نند چاہتا تھا۔ کہ کچھ تشفی آمیز الفاظ کہے لیکن ابو عبداللہ بلا توقف آگے بڑھ گیا۔ اور ملکہ ازبیلا سے ملتا ہوا البشرات کی طرف جہاں اس کا اسباب اور رشتہ دار پہلے ہی جا چکے تھے روانہ ہو گیا۔ اتنے میں چاندی کی صلیب قصر حمراء کے برج پر بلند ہو کر آفتاب کی شعاعوں میں چمکنے لگی۔ اور عیسائی بادشاہ فاتحانہ قصر حمراء میں داخل ہوا۔ ( انا للٰہ وانا الیہ راجعون ) جب ابو عبداللہ البشرات کے پہاڑ کی ایک چوٹی پر پہنچا تو بے ساختہ اس نے مڑ کر غرناطہ کی طرف دیکھا۔ اور اپنے خاندان کی گذشتہ شان و عظمت پر آخری نظر ڈال کر بے ساختہ زار و قطار رونے لگا۔ ابو عبداللہ کی ماں نے جو اس وقت ہمراہ تھی کہا کہ۔: ’’جب تو باوجودایک مرد سپاہی پیشہ ہونے کے اپنے ملک کو نہ بچا سکا‘ تو اب مثل عورتوں کے ایک گم شدہ چیز پر رونے سے کیا فائدہ‘‘۔؟۱؎ اندلس کے مسلمانوں پر عیسائیوں کے مظالم عیسائیوں نے الحمراء پر قابض ہو کر معاہدے کی تمام شرائط کو فوراً فراموش کر دیا۔ شہر غرناطہ پر بھی قبضہ کر لیا۔ سلطان ابو عبداللہ کو البشرات میں بھی نہیں رہنے دیا بلکہ انہوں نے۔ تھوڑے سے روپے دے کر البشرات کو بھی ابو عبداللہ سے خرید لیا۔ اور وہاں سے ابو عبداللہ مراکش میں جا کر شاہ مراکش کا نوکر ہو گیا۔ وہاں ایک عرصہ دراز تک اس حالت میں رہ کر فوت ہوا۔ عیسائیوں نے تمام ملک میں فوراً اپنی مذہبی عدالتیں قائم کر دیں۔ جن میں ہر روز ہزارہا مسلمان گرفتار کر کے لائے جاتے اور محض اس جرم میں کہ ان کا مذہب اسلام ہے بعض جھوٹے الزام لگا کر آگ میں جلا دیئے جاتے تھے۔ تاہم