تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جوان مردانہ جواب نے چند روز کے لیے فردی نند کو مبہوت و مرعوب بنا دیا۔ اور بظاہر کئی سال تک سلسلہ جنگ ملتوی رہا۔ سلطان ابوالحسن نے مصمم ارادہ کر لیا کہ ہم اس ملک میں آزاد و خود مختار رہیں گے۔ اور عیسائیوں کا محکوم بننے کے عوض موت کو ترجیح دیں گے فردی نند اور ازبیلا جو دونوں مل کر فرائض و فرماں روائی ادا کرتے تھے۔ تیاری میں مصروف رہے۔ عیسائی تیاریوں کا حال سن کر ابوالحسن نے خود ہی ۸۸۶ ھ میں سلطنت قسلطلہ کے قلعہ صخرہ پر جو دریائے وادی الکبیر کے کنارے نہایت مضبوط قلعہ تھا۔ اور فردی نند کے دادا نے مسلمانوں سے فتح کیا تھا۔ حملہ کیا اور ایک ہی شب کے محاصرے کے بعد بجبر و قہر عیسائیوں سے چھین لیا۔ اس جگہ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جس وقت سلطان ابوالحسن غرناطہ میں تخت نشین ہوا ہے تو سلطنت غرناطہ کا رقبہ سمٹ کر صرف چار ہزار میل مربع یا اس سے کم رہ گیا تھا۔ اور سلطنت قسطلہ کا رقبہ اس وقت وسیع ہو کر سوا لاکھ میل مربع سے بھی کچھ زیادہ تھا۔ فردی نند کو قلعہ صخرہ کے نکل جانے کا سخت صدمہ ہوا۔ اور اس نے سلطنت غرناطہ کے قلعہ الحمہ پر دھوکہ سے حملہ کیا۔ چونکہ اس قلعہ کی حفاظت کے لیے کوئی فوج اس وقت وہاں موجود نہ تھی لہٰذا معمولی کوشش کے بعد عیسائیوں کو کسی قسم کا کوئی آزار نہیں پہنچایا۔ لیکن عیسائیوں نے الحمہ پر قابض ہو کر وہاں کی تمام مسلمان رعایا کو بلا امتیاز زن و مرد تہ تیغ کر دیا۔ فردی نند نے الحمہ میں دس ہزار عیسائی فوج حفاظت کی غرض سے چھوڑ دی اور خود واپس چلا گیا۔ غرناطہ میں جب الحمہ کے قتل عام کی خبر پہنچی۔ تو تمام شہر میں کہرام مچ گیا۔ سلطان ابوالحسن نے ایک عرب سردار کو اس قلعہ کے واپس لینے کے لیے روانہ کیا۔ اس نے جاتے ہی قلعہ کا محاصرہ کر لیا۔ فردی نند کا ایک سردار یعنی حاکم قرطبہ فوج لے کر قرطبہ سے چلا کہ قلعہ الحمہ کو بچائے یہ خبر سن کر عرب سردار نے اپنی فوج کا ایک حصہ قلعہ کے محاصرہ پر چھوڑا اور ایک حصہ حاکم قرطبہ کے مقابلے کو بھیجا۔ راستے میں لڑائی ہوئی۔ اور حاکم قرطبہ شکست کھا کر بھاگا۔ ٹھیک اسی وقت دوسری طرف سے حاکم اشبیلیہ یعنی دوسرا عیسائی سردار ایک زبردست فوج لے کر نمودار ہوا۔ چونکہ قلعہ کے محاصرہ پر بہت ہی تھوڑی سی فوج باقی تھی۔ اس لیے مصلحت وقت سمجھ مسلمانوں کی فوج غرناطہ کو واپس چلی آئی۔ اور یہ قلعہ قبضہ میں نہ آ سکا۔ قلعہ الحمہ نہایت زبردست اور غرناطہ سے قریب کا قلعہ تھا۔ اس لیے اس کا عیسائیوں کے قبضے میں چلا جانا بے حد خطرناک تھا۔ ماہ جمادی الاول ۸۸۷ھ میں سلطان ابوالحسن کے پاس خبر پہنچی کہ فردی نند اپنی پوری فوج کے ساتھ غرناطہ کی طرف روانہ ہوا ہے۔ ادھر سے سلطان ابوالحسن بھی غرناطہ سے معہ فوج روانہ ہوا۔ سلطنت غرناطہ کی سرحد پر مقام لوشہ کے قریب ۲۷ جمادی الاول ۸۸۷ھ کو ایک زبردست جنگ ہوئی۔ اس لڑائی میں فردی نند کو شکست فاش حاصل ہوئی اور لشکر اسلام کے ہاتھ بے حد مال غنیمت آیا۔ ادھر میدان لوشہ میں سلطان ابوالحسن اپنے حریف فردی نند کو شکست فاش دے کر بھگا رہا تھا۔ ادھر غرناطہ میں سلطان کا بیٹا ابوعبداللہ محمد اپنے باپ کے خلاف سازش میں مصروف عمل تھا۔ اس فتح کے بعد سلطان ابوالحسن عیسائیوں کو مار مار کر بھگانے اور اپنی سلطنت کو وسیع کرنے کی تدبیروں میں مصروف ہونا چاہتا تھا۔ کہ اس کے پاس وہیں خبر پہنچی کہ شہزادہ ابوعبداللہ محمد نے المیریہ۔ بسطہ اور غرناطہ پر قبضہ کر کے اپنی خود مختاری