تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بادشاہ مامون کو اندلس سے خارج کر کے قرطبہ وغیرہ پر بھی قابض و متصرف ہو گیا۔ ۶۲۶ھ میں قریباً تمام اسلامی اندلس اس کے زیر فرمان ہو گیا۔ اسی سال برشلونہ کے عیسائی بادشاہ نے جزیرہ میورقہ و منورقہ کو فتح کر کے موحدین کے عاملوں کو وہاں سے خارج کر دیا۔ محمد بن یوسف کی اس مثال کو دیکھ کر ملک میں اور بھی باحوصلہ سردار اٹھ کھڑے ہوئے اور ہر ایک اپنی اپنی الگ حکومت قائم کرنے کی تدابیر میں مصروف ہو گیا۔ محمد بن یوسف نے یہ دیکھ کر کہ تمام سرداروں پر غالب آنا اور اپنی حکومت پر تمام رعایا کو رضا مند کر لینا آسان کام نہیں ہے۔ ایک درخواست عباسی خلیفہ بغداد کی حکومت میں روانہ کی اور لکھا کہ میں نے آپ کے نام سے تمام ملک اندلس فتح کر لیا ہے اور میری حکومت یہاں قائم ہو گئی ہے۔ لہٰذا نہایت ادب کے ساتھ ملتجی ہوں کہ مجھ کو اس ملک کا والی مقرر فرمایا جائے اور اس ملک کی سند حکومت میرے نام کی بھیج دی جائے۔ خلیفہ بغداد نے اس درخواست کو تائید غیبی سمجھ کر اندلس کی سند حکومت مع خلعت محمد بن یوسف کے سفیر کو عطا کر دی۔ جب خلیفہ بغداد مستنصر کے پاس سے سند امارت آ گئی تو ابن ہود یعنی محمد بن یوسف نے غرناطہ کی جامع مسجد میں لوگوں کو جمع ہونے کا حکم دیا۔ اور خود عباسی خلیفہ کا خلعت پہن کر اور سیاہ علم ہاتھ میں لے کر آیا اور لوگوں کو خلیفہ مستنصر عباسی کا فرمان پڑھ کر سنایا اور تمام مسلمانوں کو مبارکباد دی کہ خلیفہ نے ہماری درخواست کو منظور فرما کر ہماری سر پرستی منظور فرما لی ہے۔ اس تدبیر کا یہ اثر ہوا کہ چند روز کے لیے نصر بن یوسف معروف بہ ابن الاحمر اور ابوجمیل زیان بن مردنیش وغیرہ امراء نے جو ابن ہود یعنی محمد بن یوسف کی مخالفت پر آمادہ تھے۔ یہ دیکھ کر کہ خلیفہ بغداد کے فرمان کی وجہ سے لوگ اس کی طرف مائل ہیں۔ خاموشی اختیار کی اور بظاہر اس کی بیعت بھی کر لی۔ مگر چند ہی روز کے بعد یہ امراء پھر مخالفت پر آمادہ و مستعد ہو گئے اور لڑائیوں یعنی خانہ جنگیوں کا سلسلہ جاری ہوا۔ عیسائیوں نے اس خانہ جنگی کو دیکھ کر مسلمانوں کے شہروں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ چنانچہ ۶۲۷ھ میں انہوں نے شہر مریدہ پر جو قرطبہ کے بعد سب سے بڑا شہر تھا۔ قبضہ کر لیا۔ اہل مریدہ نے محمد بن یوسف کو اطلاع دی۔ محمد بن یوسف فوج لے کر فوراً مریدہ پہنچا اور الفانسو نہم بادشاہ لیون پر شہر کے قریب بلا تامل حملہ آور ہوا۔ اس لڑائی میں اس کو عیسائی فوج سے شکست کھانی پڑی۔ شکست خوردہ واپس ہوا۔ اور مرسیہ کو اپنا دار السلطنت بنا کر حکومت کرنے لگا۔ ۶۲۹ھ میں ابن الاحمر نے اپنے آپ کو اندلس کی فرماں روائی کا حقدار ظاہر کر کے سریش و جیاں وغیرہ شہروں کو فتح کر لیا۔ اسی اثناء میں ابو مروان نامی ایک سردار نے اشبیلیہ پر قبضہ کر لیا۔ ابن الاحمر نے ابو مروان کے ساتھ دوستی و اتحاد پیدا کر کے اپنی قوت کو بڑھایا۔ ۶۳۲ھ میں ابن الاحمر اشبیلیہ میں دوستانہ داخل ہوا اور ابو مروان کو قتل کر کے اس کے مقبوضہ علاقہ پر قبضہ کر لیا۔۔۔ اشبیلیہ کی رعایا نے چند روز کے بعد ناخوش ہو کر ابن الاحمر کو خارج کر دیا۔ اور محمد بن یوسف کی فرما نبرداری قبول کی۔ محمد بن یوسف نے ایک سردار ابن الرمیمی نامی کو اپنا وزیر و مدار المہام بنا کر اکثر امور سلطنت اسی کے سپرد کر رکھے تھے آخر میں اس نے ابن الرمیمی کو المیریہ کا حاکم بنا دیا تھا۔ ابن الرمیمی نے المیریہ میں بغاوت اختیار کی محمد بن یوسف اس کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوا۔ ابھی راستے ہی میں تھا کہ ابن الرمیمی کے جاسوسوں نے اس کو رات کے وقت موقعہ پا کر خیمے کے اندر گلا گھونٹ کر مار ڈالا۔ یہ واقعہ ۲۴ جمادی ۶۳۵ھ کو