تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
گذرتے ہوئے جن کے دونوں طرف شاہی خدام کی صفیں استادہ تھیں۔ امیر ناصر لدین اللہ کے سامنے پہنچے۔ اس وقت امیر موصوف مطالعہ کتب میں مصروف تھا۔ ارکان وفد نے شاہ انگلستان کا خط پیش کیا۔ اس خط میں لکھا تھا کہ آپ میری مدد کریں اور میرے ملک کی بغاوت فرو کرنے کے لیے فوجیں بھیج دیں۔ یہ بھی لکھا تھا کہ میں دین عیسوی کو ترک کر کے مسلمان ہونے پر آمادہ ہوں۔ پادری رابرٹ اس سفارت کا پیشوا تھا۔ اس نے بھی امیر ناصر سے ایسی باتیں کیں۔ جس سے امیر ناصر کو یہ شبہ پیدا ہو گیا کہ یہ لوگ دنیوی مقاصد کے لیے بطور رشوت تبدیلی مذہب کا لالچ دیتے ہیں۔ اسی لیے امیر ناصر لدین اللہ نے اس سفارت کی کچھ زیادہ قدر نہ کی۔ اور کم التفاتی کے ساتھ رخصت کر کے اس امر کا منتظر رہا کہ شاہ انگلستان اگر اسلام کی صداقت کو تسلیم کر چکا ہے تو وہ ضرور میری اس کم التفاتی کے بعد بھی اپنے اسلام کا اعلان کرے گا۔ اور اس وقت اس کی امداد کے لیے جنگی بیڑہ روانہ کر دیا جائے گا۔ امیر ناصر بہت دھیمی طبیعت کا آدمی تھا۔ جنگ و پیکار کے ہنگامے برپا کرنے کا اس کو شوق نہ تھا اسی لیے وہ فوج جو اس کے باپ کے زمانے میں بڑی طاقتور اور باہمت تھی۔ امیر ناصر کی کم التفاتی سے اس کے سردار بد دل ہو رہے تھے۔ علاوہ ازیں سابق امیر کے عہد حکومت میں فوج کے ہر سپاہی کو علاوہ مقررہ تنخواہ کے ہرسہ ماہی ہر بادشاہ کی طرف سے انعامات ملا کرتے تھے۔ امیر ناصر کے عہد میں ان انعامات کے موقوف ہونے سے سپاہی افسردہ خاطر تھے۔ ۶۰۸ھ میں امیر ناصر افریقہ کی مہمات سے فارغ ہو کر اندلس کی جانب متوجہ ہوا یہاں طیطلہ میں شاہ کیسٹل الفانسو کے گرد یورپ کے ہر ملک اور ہر حصے سے عیسائی لوگ جوق در جوق آ آ کر جمع ہو رہے تھے۔ اور بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ تمام برا عظم یورپ کی پوری طاقت اور شاہان یورپ کے جمع جنگی سامان اسلام کشی کے لیے جزیرہ نمائے اندلس میں فراہم ہو گئے تھے۔ شام و فلسطین کے مقابلہ میں اندلس یورپ سے قریب بھی تھا۔ اور اندلس کے ہموار میدانوں تک عیسائی ریاستوں کی حدود پھیلی ہوئی تھیں۔ اس لیے وسط اندلس میں عیسائی طاقت کی یہ سب سے بڑی نمائش بآسانی ممکن ہوئی۔ ناصرلدین اللہ نے عیسائیوں کی اس عظیم الشان تیاری اور یورپ کے ہر ملک میں مسلمانوں کے خلاف اعلان جہاد کا حال سن کر مراکش و اندلس سے فوجوں کو فراہم کیا اور جہاد کا اعلان کرایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چھ لاکھ کے قریب منظم فوج اور مجاہدین اشبیلیہ میں جمع ہو گئے۔ اس لشکر کو لے کر امیر ناصر شہر جیان کی طرف روانہ ہوا۔ ادھر الفانسو اپنے لاتعداد لشکر کو لیے ہوئے شہر سالم کے قریب مقام العقاب میں آ کر خیمہ زن ہوا۔ ادھر سے اسلامی لشکر بھی جیان سے العقاب میں آیا۔ عیسائی انتقام کے جوش میں از خود رفتہ ہو رہے تھے۔ اور ملک شام کی ناکامیوں کا بدلہ اندلس میں مسلمانوں سے لینا چاہتے تھے۔ ادھر اسلامی لشکر کی حالت عجیب تھی۔ باقاعدہ فوج جو اچھی طرح مقابلہ کی قابلیت رکھتی تھی۔ سب اپنے امیر سے برگشتہ تھی۔ کیونکہ ان کو کئی مہینے سے تنخواہ نہیں ملی تھی۔ فوجی افسروں کی خواہش یہ تھی۔ کہ اس لڑائی میں ان کے بادشاہ کو شکست ہو۔ اور وہ اس تلخ تجربہ کے بعد فوج پر روپیہ صرف کرنے اور انعام و اکرام دینے میں بخل کو کام میں نہ لائے۔ چنانچہ ۶۰۹ھ کو جب لڑائی شروع ہوئی تو اسلامی لشکر سے بعض سردار اپنی ماتحت جمعیتوں کو لے کر جدا ہو گئے۔ بعض سرداروں اور سپاہیوں نے حملے کے وقت وانستہ اپنے نیزوں کو ٹیڑھا کر کے بجائے اس کے کہ