تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کو جب کہ وہ معتمد کے پاس اشبیلیہ میں پہنچ چکا تھا ایک خط بھیجا‘ اس خط میں اپنی کثرت فوج‘ اور طاقت و قوت کا ذکر کر کے یوسف کو مغلظات گالیاں بھی دی تھیں‘ یوسف نے اپنے معتمد ابوبکر بن القصیر کو اس خط کا جواب لکھنے کے لیے حکم دیا‘ ابوبکر نے ایک نہایت مدلل و مطول مسودہ لکھ کر پیش کیا‘ یوسف نے یہ کہہ کر کہ اس قدر عبارت آرائی کی ضرورت نہیں ہے‘ الفانسو کے خط کی پشت پر یہ جملہ اپنے قلم سے لکھ کر روانہ کر دیا کہ: ’’جو زندہ بچے گا وہ دیکھ لے گا‘‘۔ اس مختصر جواب کو پڑھ کر الفانسو خوف زدہ ہو گیا‘ آخر ذلاقہ کے میدان میں جنگ عظیم برپا ہوئی‘ اسلامی لشکر کی کل تعداد بیس ہزار کے قریب تھی اور عیسائی لشکر ساٹھ ہزار سے زیادہ تھا‘ بروز چہار شنبہ ماہ رجب ۴۷۹ھ جب اسلامی لشکر آگے بڑھا تو الفانسو نے پیغام بھیجا کہ ہم ہفتہ کے روز نبرد آزما ہوں گے‘ یوسف و معتمد نے اس درخواست کو منظور کر لیا لیکن الفانسو نے اسلامی لشکر کو دھوکا دیا تھا اس نے جمعہ کے روز بے خبری میں حملہ کیا‘ اس سے اسلامی لشکر میں ایک قسم کی پریشانی نمودار ہوئی‘ لیکن مسلمانوں نے سنبھل کر عیسائیوں کے حملے کو روکا اور بڑی بہادری سے لڑنے لگے‘ معتمد کی ران کے نیچے اس روز تین گھوڑے ہلاک ہوئے‘ اور وہ بڑی بہادری سے لڑا‘ یوسف نے جب حملہ کیا تو عیسائی تاب مقابلہ نہ لا سکے‘ الفانسو بھی اس لڑائی میں زخمی ہوا اور اپنی تمام فوج اس میدان میں کٹوا کر ۲۰ ماہ رجب ۴۷۹ھ کو چند سو آدمیوں کے ساتھ میدان ذلاقہ سے فرار ہوا‘ اسلامی لشکر اس فتح کے بعد چار روز یعنی ۲۴ ماہ رجب تک اسی میدان میں مقیم رہا‘ معتمد نے مال غنیمت کی نسبت یوسف بن تاشفین کی خدمت میں عرض کیا کہ کس طرح تقسیم کیا جائے‘ یوسف نے کہا کہ میں تمہاری مدد کرنے آیا ہوں‘ مال غنیمت حاصل کرنے نہیں آیا‘ ذلاقہ سے یوسف و معتمد دونوں اشبیلیہ آئے‘ یہاں یوسف چند روز مقیم رہ کر افریقہ واپس چلا گیا‘ الفانسو اس شکست کے بعد مخبوط الحواس سا ہو گیا تھا مگر مسلمان رئوساء نے عیسائیوں کی اس عظیم الشان شکست سے کوئی فائدہ نہیں اٹھانا چاہا بلکہ پہلے کی طرح پھر خانہ جنگی میں مصروف ہو گئے‘ مسلمانوں کی اس حالت کو دیکھ کر عیسائیوں نے پھر ہمت کی اور فوجی تیاریوں میں مصروف ہو کر مسلمانوں کے قبضے سے شہروں کو نکالنا شروع کر دیا اور اشبیلیہ کے بعض قلعوں پر بھی قابض ہو گئے۔ ماہ ربیع الاول ۴۸۱ھ میں امراء اندلس کی درخواست پر یوسف بن تاشفین کو پھر اندلس میں آنا پڑا‘ مگر اس مرتبہ اندلس کے مسلمانوں کی ذلت و بدنصیبی یہاں تک ترقی کر چکی تھی کہ وہ یوسف بن تاشفین کے ساتھ ایک کیمپ میں شامل ہو کر بھی آپس میں لڑنے سے باز نہ رہے یوسف اس حالت کو دیکھ کر برداشتہ خاطر ہوا اور مراکش کی جانب واپس چلا گیا۔ دو سال کے بعد ۴۸۳ھ میں یوسف بن تاشفین عیسائیوں کو سزا دینے کے لیے پھر اندلس میں آیا‘ کیونکہ اندلس کے مسلمان سلاطین یوسف بن تاشفین کو اپنا سر پرست تسلیم کر چکے تھے اور عیسائیوں کو اپنے مقبوضات پر حملہ آور دیکھ کر یوسف بن تاشفین سے خواہان امداد ہوا کرتے تھے‘ اس مربتہ یوسف بن تاشفین عیسائی فوجوں کو پیچھے ہٹاتا اور شکست دیتا ہوا شہر طیطلہ کے سامنے جا پہنچا اور اس کا محاصرہ کر لیا‘ الفانسو چہارم نے طیطلہ کو اپنا دارالسلطنت بنا لیا تھا اور وہ طیطلہ میں موجود تھا‘ یوسف نے