تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے اسلامی فوجوں کو قتل کیا‘ رذمیر نامی عیسائی بادشاہ نے سرقسطہ کو مسلمانوں سے چھین لیا اور وہاں کی مسجدوں کے ڈھانے اور مسمار کرنے میں ذرا باک نہیں کیا‘ اس موقعہ پر قابل تذکرہ بات یہ ہے کہ مسلمان اب تک بارہا عیسائیوں کو ہزیمتیں دے کر ان کے شہروں میں فاتحانہ داخل ہوئے تھے لیکن کسی ایک موقعہ پر بھی عیسائیوں نے مسلمانوں سے یہ سنگ دلی نہیں دیکھی تھی کہ انہوں نے عیسائیوں کی عورتوں اور بچوں کو قتل کیا ہو‘ عیسائیوں نے جو اب مسلمانوں کے شہروں کو فتح کیا تو ان کی تلوار سے پر امن اور بے ضرر رعایا کے بچے‘ بوڑھے‘ عورتیں سب قتل ہوئے‘ اس کے بعد بھی مسلمانوں کو جب کبھی عیسائیوں پر فتوحات حاصل ہوئیں‘ انہوں نے عیسائیوں کی عورتوں‘ بچوں اور بوڑھوں کو مطلق ہاتھ نہیں لگایا۔ الفانسو چہارم نے طیطلہ پر قبضہ کرنے کے بعد حکومت اشبیلیہ کی حدود میں قدم بڑھانے کی جرأت کی‘ اشبیلیہ کا بادشاہ معتمد بن معتضد عبادی چوں کہ بادشاہ المیریہ سے برسر جنگ تھا‘ اس نے فوراً زرخراج الفانسو چہارم کے پاس روانہ کیا اور اس بلا کو اپنے سر سے ٹالنا چاہا‘ آخر الفانسو چہام نے معتمد کے پاس پیغام بھیجا کہ میری بیوی جو حاملہ ہے اس کو تاوضع حمل مسجد قرطبہ میں رکھنا چاہتا ہوں تاکہ وہیں بچہ پیدا ہو اس کے قیام کا بندوبست کر دو اور قصر زہراء بھی اس کے لیے خالی کر دو‘ الفانسو چہارم یہ سنتے ہی دریائے وادی الکبیر کے کنارے اشبیلیہ کے محاذی آ کر خیمہ زن ہوا اور معتمد کو لکھا کہ فوراً شہر اور محلات شاہی میرے لیے خالی کر دو‘ معتمد نے اس خط کی پشت پر جواب لکھ کر بھیج دیا کہ ہم ان شاء اللہ تعالیٰ بہت جلد تجھ کو تیری گستاخیوں کا مزا چکھا دیں گے‘ اس مختصر جواب سے الفانسو کے قلب پر رعب طاری ہو گیا اور وہ اشبیلیہ پر حملہ کی جرأت نہ کر سکا مگر اس نے اپنے جاسوسوں کے ذریعہ تمام ملک اندلس میں یہ مشہور کرا دیا کہ معتمد عبادی نے یوسف بن تاشفین کو اپنی مدد کے لیے مراکش سے بلایا ہے‘ اس خبر کے شہرت دینے میں مصلحت یہ تھی کہ رئوساء اندلس مراکش کے بادشاہ کا اپنے ملک میں داخل ہونا سخت ناپسند کرتے اور اپنی بے عزتی سمجھتے تھے‘ حالانکہ عیسائیوں سے معاہدہ کرنے اور عیسائیوں کو خراج ادا کرنے میں ان کو شرم نہیں آتی تھی‘ چنانچہ اس خبر کے مشہور ہوتے ہی مسلمان سلاطین نے معتمد بن معتضد عبادی بادشاہ اشبیلیہ کو لعنت ملامت کے خطوط لکھے کہ تو نے یوسف بن ثاشفین کو کیوں اندلس میں بلانا گوارا کیا‘ معتمد نے ان سب کو یہ جواب لکھا کہ ’’مجھ کو خنزیروں کی پاسبانی سے اونٹوں کی نگہبانی کرنا پسند ہے‘‘۔ مطلب اس کا یہ تھا کہ الفانسو مجھ کو گرفتار کر کے خنزیروں کے چرانے کی خدمت لے گا‘ اور یوسف بن تاشفین اگر اندلس پر خود قابض ہو کر اور مجھ کو گرفتار کر کے مراکش لے گیا تو وہاں مجھ سے اونٹ چرانے کا کام لے گا‘ یعنی میں الفانسو کا قیدی بننا گوارا نہیں کرتا‘ یوسف کا قیدی بننا گوارا کر سکتا ہوں۔ اس کے بعد معتمد نے ایک وفد یوسف بن تاشفین کے پاس روانہ کیا اور عیسائیوں کے مقابلے میں مدد طلب کی‘ یوسف بن تاشفین فوراً وارد اندلس ہوا‘ الفانسو بھی اس زبردست دشمن کے مقابلے کی تیاریوں میں مصروف ہوا اور اس نے ہر طرف سے بہادر اور تجربہ کار جنگ جو فراہم کر کے ساٹھ ہزار تک اپنے لشکر کی تعداد بڑھالی‘ اس نے زبردست لشکر کو دیکھ کر الفانسو نے ازراہ کبر و غرور کہا کہ اگر میرے مقابلے کو آسمان سے فرشتے بھی اتر آئیں‘ تو میں اس لشکر سے ان کو بھی شکست دے سکتا ہوں‘ اس کے بعد الفانسو نے یوسف بن تاشفین