تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نامی بڑا ہوشیار اور تجربہ کار شخص تھا۔ امیہ باغی ہو کر اور سرقطہ کی فوج اور خزانہ جس قدر ہمراہ لے جا سکتا تھا۔ ہمراہ لے کر زدمیر کے پاس مقام سمورہ دارلسلطنت جلیقیہ میں چلا گیا۔ اور اسی جگہ نوار و لیون اور قسطلہ وغیرہ کی فوجیں بھی آ کر فراہم ہونے لگیں برشلونہ وطرکونہ تک کی فوجیں بھی یہاں پہنچ گئیں۔ فرانس سے بھی عیسائی مجاہدین اس طرف آ آ کر فراہم ہونے لگے۔ اندلس میں عیسائی طاقت کا یہ سب سے بڑا مظاہرہ تھا جس میں ایک مسلمان گورنر بھی مع اپنی زبردست طاقت کے شامل اور انتہائی جوش کے ساتھ سلطان عبدالرحمن کو شکست دینے اور نقصان پہنچانے پر آمادہ تھا۔ اس مسلمان گورنر نے عیسائیوں کو بڑی بڑی قیمتی معلومات بہم پہنچائیں اور نہایت معقول و مفید مشورے دئیے۔ امیہ بن اسحٰق کی موجودگی عیسائیوں کے لیے بے حد ہمت افزائی اور جرأت کا موجب تھی۔ ادھر سلطان عبدالرحمن نے جب اس فساد عظیم کا حال سنا تو اس نے فوراً اعلان جہاد کیا۔ باقاعدہ فوج کے علاوہ بہت سے رضا کار اور غیر مصافی لوگ بھی شوق شہادت میں آ آ کر شریک لشکر ہو گئے۔ اس لشکر کی تعداد پچاس ہزار سے زیادہ تھی۔ جس کو ہمراہ لے کر سلطان عبدالرحمن نے قرطبہ سے شمال کی جانب کوچ کیا مگر ان پچاس ہزار سے زیادہ آدمیوں میں بڑا حصہ ان لوگوں کا تھا۔ جو تجربہ کار وستیز آزمودہ نہ تھے۔ جوں جوں سلطانی فوج شمال کی جانب بڑھتی گئی عیسائی فوجیں سمٹ سمٹ کر سمورہ میں جمع ہوتی گئیں۔ عیسائیوں کو اپنی تعداد اور قوت کی زیادتی کے علاوہ ایک یہ مضبوطی حاصل تھی کہ سمورہ کے گرد سات مضبوط دیواریں شہر پناہ کی تھیں۔ اور ہر دیوار کے بعد ایک نہایت عمیق خندق کھدی ہوئی تھی۔ ان کا سپہ سالار اعظم زدمیر تھا اور امیہ بن اسحٰق اس کا مشیرو معاون تھا اسلامی فوج نے جا کر معرکہ کارزار گرم کیا۔ عیسائی لشکر نے میدان میں نکل کر مقابلہ کیا۔ ہر ایک میدان جنگ میں مسلمانوں کو کامیابی حاصل ہوئی۔ اور عیسائیوں کو پسپا ہونا پڑا۔ کئی روز کی معرکہ آرائی کے بعد عیسائی لشکر سمورہ کی شہر پناہ میں محصور ہو گیا‘ ۳۰ شوال ۳۲۷ھ کو مسلمان سخت حملہ کر کے دو دیواروں کے اندر گھس گئے تیسری دیوار کو بھی انھوں نے فتح کیا۔ لیکن اس دیوار کے اندر پہنچتے ہی عیسائیوں کے لشکر نے جو کمین گاہوں میں پوشیدہ تھا نکل کر ہر طرف سے حملہ شروع کر دیا۔ اور مسلمانوں کی بڑی تعداد بوجہ اس کے کہ نہ آگے بڑھ سکتی تھی نہ پیچھے ہٹ سکتی تھی۔ خندق میں گرگر کر ڈوب گئی۔ غرض مسلمان ایسے تنگ مقام میں اور ایسی بری طرح پھنسے کہ صرف ۴ آدمی زندہ بچ کر باہر نکل سکے اور اپنے بادشاہ عبدالرحمن ثالث کو جو پچاسواں شخص تھا بمشکل اس نرغہ سے بچا کر نکال لائے۔ باقی سب کے سب سمورہ کی خندق میں شہید ہو گئے ان پچاس آدمیوں کے تعاقب میں زدمیر نے ایک رسالہ بھیجنا چاہا تو امیہ بن اسحٰق نے اس کو یہ کہہ کر روک دیا کہ بہت ممکن ہے کہ اسلامی لشکر کی کوئی بڑی تعداد باہر جھاڑیوں میں چھپی ہوئی موجود ہو اور وہ ہر طرف سے گھیر کر آپ کے لشکر کو تباہ کر دے۔ غرض عبدالرحمن ثالث کو اس لڑائی میں بڑی ناکامی ہوئی۔ اور جب سے مسلمانوں نے اندلس کی سر زمین پر قدم رکھا تھا۔ آج تک کسی معرکہ میں مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد شہید نہیں ہوئی تھی۔ یہ لڑائی یوم الخندق یا جنگ خندق کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس لڑائی کے بعد امیہ بن اسحٰق کو پچاس ہزار مسلمانوں کی لاشیں دیکھ کر اپنی بداعمالی پر غور کرنے کا موقعہ ملا اور اس کے ضمیر نے اس کو ملامت کی کہ تو نے مسلمانوں