تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے صلح کر کے اپنی طاقت کو بڑھانے کی کوشش کی۔ سلطان عبداللہ نے اس فتح کے نتائج دیکھ کر ابن مروان کا زور توڑنا اور اس پر حملہ کرنا ضروری سمجھا۔ وزیر السلطنت احمد بن ابی عبیدہ کو فوج دے کر ابن مروان کی طرف بھیجا گیا۔ ابن مروان نے ابرہیم بن حجاج والیٔ اشبیلیہ سے امداد طلب کی چنانچہ ابراہیم بن حجاج بھی ابن مروان کی کمک پر تیار ہو گیا۔ دونوں نے مل کر احمد بن ابی عبیدہ کا مقابلہ کیا اس معرکہ میں بھی رعب سلطنت نے اپنا کام کیا اور باغیوں کو شکست ہوئی۔ اس شکست کے بعد ابراہیم بن حجاج نے اطاعت و فرما نبرداری کا اظہار کیا اور سلطان عبداللہ نے اس کو اشبیلیہ کا عامل مقرر کر دیا۔ اس لڑائی کا نتیجہ پہلی لڑائی سے بھی زیادہ مفید برآمد ہوا اور حدود سلطنت کے ساتھ ہی وقار سلطنت نے بھی پہلے سے زیادہ ترقی کی۔ اس واقعہ کے چند ہی روز بعد عبدالرحمن بن مروان کا انتقال ہو گیا اور اس کے بیٹوں نے طیطلہ وغیرہ میں حکومت شروع کی۔ ادھر ابراہیم بن حجاج حاکم اشبیلیہ نے اس کے ملک کا اکثر حصہ اپنی حکومت میں شامل کر لیا‘ عمر بن حفصون نے سلطان عبداللہ سے شکست کھا کر پہاڑوں میں پناہ لی تھی۔ جب سلطان دارالسلطنت کی طرف واپس ہوا عمر بن حفصون نے بتدریج اپنی طاقت کو بڑھانا اور اپنی حالت کو سدھارنا شروع کیا۔ بادشاہ السیٹریاس مسمی الفانسو اور اس کے بھائی میں لڑائی شروع ہوئی۔ الفانسو نے اپنی تسکین خاطر کے لیے سلطان عبداللہ سے خط و کتابت کر کے تجدید صلح کی خواہش ظاہر کی۔ سلطان نے فوراً رضا مندی ظاہر کر کے ان شرائط پر صلح کر لی کہ نہ بادشاہ السیٹریاس اپنی موجودہ حدود سلطنت سے باہر قدم رکھے‘ نہ اسلامی فوجیں اس کی حدود میں داخل ہوں۔ یہ صلح الفانسو کیلئے بہرنہج مفید اور نفع رساں تھی۔ کیونکہ مسلمان اس تمام ملک کو جو اس کے قبضے میں تھا۔ اپنا ملک سمجھتے اور اس پر قبضہ کرنے کا دعویٰ رکھتے تھے۔ لیکن اب سلطان عبداللہ نے اس کی حکومت کو تسلیم کر کے اس کی اولو العزمی کو تقویت پہنچا دی۔ ادھر آئے دن کی لڑائیوں اور بغاوتوں سے رعایا تنگ آچکی تھی اور یہ بدامنی کا سلسلہ بہت ہی طویل ہو گیا تھا۔ لہٰذا خود بخود لوگوں کی توجہ اس طرف مائل ہوئی کہ دربار قرطبہ کے خلاف بغاوت کرنا کسی طرح مفید نہیں ہے اور ایسے باغیوں کا ساتھ دینا اور ان کی مدد کرنا گناہ عظیم ہے۔ لہٰذا یہ صورت جو پیدا ہو چکی تھی دیر تک قائم رہی۔ اشبیلیہ ایک خود مختار اور طاقتور ریاست مشرق میں قائم تھی۔ ان کے علاوہ باقی اکثر حصہ ملک کا اسی قسم کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم تھا۔ اور سب اپنی اپنی جگہ حکومت کرتے اور دربار قرطبہ کی ظاہری تکریم بجا لاتے تھے۔ عیسائی ریاستوں میں جانشینوں کے متعلق اتفاقاً سخت پیچیدگیاں پیدا ہو گئی تھیں۔ اور ان کو اپنے اندورنی جھگڑوں سے اتنی فرصت ہی نہ تھی کہ حکومت اسلامیہ پر حملہ آور ہوتے ؎ خدا ۱؎ شرے برانگیز دکہ خیرما دراں باشد ۱؎ لفظ ’’خدا‘‘ فارسی زبان کا لفظ ہے۔ ہمارے نزدیک تحریر یا گفتگو وغیرہ میں اس کا استعمال درست نہیں کیونکہ مذہباً اس کا تعلق اورپس منظر ایران کے مشرک مجوسی مذہب سے ہے‘ جس میں آگ کی پوجا کی جاتی ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ نام اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنہ میں سے نہیں ہے۔ مجوسیوں کے دو خدا تھے‘ ایک نیکی کا (خدائے یزداں) اور دوسرا بدی کا (خدائے اہرمن)۔ یہ تصور باطل اور خلاف اسلام ہے۔ بنأ بریں لفظ ’’خدا‘‘ کا استعمال غلط ہے۔ لفظ اللہ‘ اللہ تعالیٰ ‘ اللہ تبارک و تعالیٰ‘ اللہ سبحانہ و تعالیٰ‘ اللہ وحدہٗ لا شریک لہٗ کا استعمال ہونا چاہیے۔