تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لوگوں کی اولاد بھی نو مسلم ہی کہلاتی تھی اور یہ مذہب اسلام کے زیادہ پابند نظر آتے تھے۔ 4 خالص بربری لوگ۔ ان کی تعداد بھی کافی تھی۔ 5 مجوسی۔ یہ ان لوگوں کی اولاد تھی جن کو بطور غلام مختلف ملکوں سے خرید کرا کر منگوایا گیا تھا۔ ان کی تعداد زیادہ نہ تھی۔ ۱؎ بعض سرکاری علماء اور فقہاء کی بات ہو رہی ہے ورنہ تو ہر زمانہ میں حق گو اور مخلص علماء موجود رہے ہیں۔ 6 یہودی۔ یہ بھی اندلس کے قدیم باشندے تھے‘ ان کا پیشہ زیادہ تر تجارت تھا اور فساد و بغاوت سے الگ رہنا چاہتے تھے۔ 7 عیسائی۔ یہ اپنے مذہب پر آزادی کے ساتھ عامل تھے۔ ان کی تعداد بھی ملک میں زیادہ تھی۔ 8 مرتدین۔ یہ وہ لوگ تھے جو سلطان محمد کے زمانے میں اسلام سے روگرداں ہو کر پھر حالت کفر میں واپس چلے گئے تھے۔ ان مرتدین کے ساتھ ہی ایک ایسا فرقہ بھی شامل تھا جو کسی مذہب کی قید میں نہ تھا۔ اور اس کا پیشہ لوٹ مار اور غارت گری ہی تھا۔ اول الذ کر چاروں گروہ مسلمان اور اصل اسلامی طاقت سمجھے جاتے تھے۔ بادشاہ اور علماء کا اولین فرض یہ تھا کہ ان کی نگاہ میں ان چاروں کا مرتبہ مساوی ہوتا۔ مگر سلطان محمد سے اس معاملے میں سخت غلطی اور کمزوری کا اظہار ہوا اور مولدین کو جن کی تعداد اور طاقت بڑھی ہوئی تھی شکاتیں پیدا ہوئیں۔ علماء کی گروہ بندی اور مالکی جنبلی تفریق نے نو مسلموں کے جوش کو سرد کر دیا۔۱؎ بربری لوگ بھی اس سے متاثر ہوئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کے اندر سے بہ حیثیت مجموعی روحانیت جاتی رہی۔ اخلاق فاضلہ ضعیف ہو گئے۔ دینی جہاد کا شوق سرد پڑ گیا۔ وہ تلواریں جو اللہ کی راہ میں بے نیام ہوتی تھیں اب نفسانی اغراض و خواہشات کے پورا ہونے میں چمکنے لگیں۔ ہر ایک گروہ کی تفریق نمایاں تر ہوتی گئی۔ سلطان نے جس قدر فقہاء کے اقتدار کو بڑھایا اسی قدر عوام کا اعتقاد فقہا کی نسبت کمزور ہوتا گیا۔ اس بے اعتمادی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کی محبت دلوں سے جاتی رہی اور دنیا دین پر مقدم ہو گئی۔ مسلمانوں اور مسلمانوں کی سلطنت کا یہ حال تھا۔ ادھر عیسائیوں کی ریاستیں جو وسیع ہوتے ہوتے اسلامی سلطنت کی ہمسر بن گئی تھیں۔ روز افزوں ترقی پر تھیں۔ الفانسوسوم شاہ السیٹریاس مسلمانوں سے اندلس کے خالی کرانے کا پروگرام تیار کر رہا تھا۔ پرتگال کے عیسائی اپنی الگ ریاست قائم کرنے کی تیاری کر چکے تھے۔ اشبیلیہ پر ابن مروان اور مالقہ وغیرہ پر ابن حفصون خود مختارانہ حکمران تھے۔ طیطلہ نے خود مختار ہو کر عیسائی مقبوضہ کو قرطبہ کے قریب تک وسیع کر دیا تھا۔ جلیقیہ وار اگون وغیرہ نے جبل البرتات سے اندلس کے مغربی ساحل یعنی پرتگال و اشبیلیہ تک عیسائیوں کا ڈنکا بجوا دیا تھا۔ اس سلسلہ میں کہیں کہیں کسی شہر کا کوئی مسلمان عامل موجود تھا تو وہ عیسائیوں کی ہمدردی کا دم بھر رہا تھا۔ غرض سلطان منذر نے نہایت خطرناک زمانے میں تخت سلطنت پر قدم رکھا۔ ۱؎ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کو مسلمانوں کی آپس کی لڑائیوں‘ فرقہ بندیوں وغیرہ سے اس قدر زیادہ