تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
درمیان تھا خیمہ زن کیا۔ اہل طیطلہ نے جب یہ دیکھا کہ سلطان کے ساتھ بہت ہی تھوڑی سی فوج ہے اور اسی لیے وہ طیطلہ کے محاصرے کی جرأت نہیں کر سکا تو وہ خود طیطلہ سے نکل کر سلطانی لشکر پر حملہ آور ہوئے۔ جب لڑائی شروع ہو گئی تو چاروں طرف سے سلطانی لشکر نکل کر حملہ آور ہوا۔ اس غیر مترقبہ آفت سے پہاڑی عیسائی اور اہل طیطلہ حواس باختہ ہو کر بھاگنے لگے مگر سلطانی لشکر نے اس میدان میں بیس ہزار آدمیوں کو قتل کر ڈالا۔ اس شکست سے اہل طیطلہ کی ہمت پست ہو گئی اور سلطان محمد نے بآسانی طیطلہ پر قبضہ کر کے وہاں ایک معمولی دستہ فوج متعین کیا۔ اس لڑائی میں اس قدر عظیم الشان کشت و خون ہوا تھا کہ اب اہل طیطلہ کے باغی ہونے اور سرکشی اختیار کرنے کی توقع نہ رہی تھی۔ لیکن اہل طیطلہ کے تعلقات اب شمالی عیسائی سلاطین سے قائم ہو چکے تھے۔ ادھر لشکر شاہی میں بہت سے سردار اور صوبوں کے عامل ایسے تھے جو شاہ ایسٹریاس۔ شاہ گاتھک مارچ‘ شاہ جلیقیہ‘ شاہ نوار‘ شاہ ایکیوٹین‘ شہنشاہ فرانس سے درپردہ خط و کتابت رکھتے اور سازش کر چکے تھے۔ جس طرح ہر ملک میں مسلمانوں کی حکومت کے زوال کا سبب آپس کی نااتفاقی ہوا ہے اسی طرح اندلس میں بھی آپس کی نا اتفاقی اور خانہ جنگی نے روز بد دکھایا اندلس میں اس نا اتفاقی و خانہ جنگی کی مثالیں دوسرے ملکوں کے مقابلے میں کسی قدر زیادہ اور غیر معمولی نظر آتی ہیں۔ اندلس کی اسلامی تاریخ میں کوئی زمانہ ایسا دستیاب نہیں ہوتا جس میں مسلمان اس مہلک مرض سے محفوظ و مامون نظر آتے ہوں۔ بہر حال عیسائیوں کے اتحاد اور مسلمانوں کی غداری نے اہل طیطلہ کو ۲۴۲ھ کے آخر میں پھر بغاوت و سرکشی پر آمادہ کر دیا۔ اس مرتبہ سلطان محمد نے پھر طیطلہ پر چڑھائی کی اور دوبارہ ان کو مطیع و منقاد بنا کر اور باغیوں کو سزائیں دے کر واپس ہوا۔ مگر سلطان محمد کے واپس ہوتے ہی اہل طیطلہ نے ایک عیسائی سردار کے زیر قیادت پھر علم بغاوت بلند کیا۔ غرض اہل طیطلہ اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے اور سلطان محمد کو بار بار ان پر چڑھائی کرنے میں مصروف رہنا پڑا۔ آخر ۲۴۸ھ میں سلطان محمد اس بات پر رضا مند ہو گیا کہ اہل طیطلہ کو اقرار اطاعت لے کر حکومت خود اختیاری عطا کر دے یعنی اہل طیطلہ کو اختیار دے دیا گیا کہ وہ اپنا گورنر خود منتخب کر لیں اور وہ گورنر ایک مقررہ سالانہ رقم دارالسلطنت قرطبہ میں بھیجا کرے باقی اندرونی انتظام میں وہ خود مختار ہو گا۔ سلطان محمد نے اہل طیطلہ کی اس شرط کو منظور کر کے نہ صرف اپنی کمزوری کا اظہار کیا بلکہ یوں کہئے کہ عیسائیوں کے اس قدیمی دارالسلطنت کو خود اختیاری حکومت عطا کر کے اندلس میں دوبارہ عیسائی سلطنت کا سنگ بنیاد رکھ دیا اور اسلامی سلطنت اندلس کے ایوان کی بنیاد میں سرنگ لگا دی جس سے ایک عرصہ کے بعد مسلمانوں کا نام و نشان ملک اندلس سے گم ہو گیا۔ طیطلہ والوں نے موسیٰ بن موسیٰ نو مسلم کے بیٹے لوپ کو گورنر بنانا چاہا۔ سلطان محمد نے اس کو بخوشی منظور کر لیا۔ اس کے بعد طیطلہ میں شمالی علاقے کی عیسائی حکومتوں سے پہاڑی اور جنگ جو عیسائی آ آ کر بکثرت آباد ہونے شروع ہوئے اور مسلمانوں کو جو طیطلہ میں آباد تھے بتدریج وہاں سے خارج اور بے دخل کرنا شروع کیا۔ نہ صرف شہر طیطلہ بلکہ اس کے اردگرد کا تمام علاقہ ریاست ایسٹریاس کا نمونہ بن گیا۔ ادھر موسیٰ بن موسیٰ گورنر سرقسطہ نے عیسائی سلاطین سے خفیہ معاہدے کر لیے تھے۔ غرض اس غدار خاندان نے سلطنت اسلامیہ کو کمزور کرنے میں خوب حصہ لیا جو بظاہر مسلمان کہلاتا تھا۔