احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
اپنے اوپر قادیانیوں کے معروف طریق کے مطابق تقدس کی جعلی ردا نہیں اوڑھتے اور اگر اس اظہار حقیقت میں ان کا کوئی عزیز زد میں آجائے تو وہ اسے بچانے کی بھی زیادہ جدوجہد نہیں کرتے۔ عموماً وہ اپنی آپ بیتی حکایت عن الغیر کے طور پر سناتے ہیں اور گو ان روایات کے مندرجات بتادیتے ہیں کہ ان کا مرکزی کردار وہ خود ہی ہیں۔ لیکن اگر کوئی پیچھے پڑ کر کریدنا ہی چاہے کہ یہ نوجوان کون تھا تو وہ بتادیتے ہیں کہ یہ میں ہی تھا۔ انہوں نے بتایا: ۱… ’’۱۹۲۴ء میں مرزامحمود بغرض سیروتفریح کشمیر تشریف لے گئے۔ دریائے جہلم میں تیراکی میں مصروف تھے کہ مرزامحمود نے غوطہ لگا کر ایک سولہ سالہ نوجوان کے ’’منارۂ وجود‘‘ کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ وہ اتنا کہہ کر خاموش ہوگئے تو ان کے دواخانہ کے انچارج جناب اکرم بٹ نے پوچھا۔ آپ کو کیسے پتہ چلا؟ تو وہ بولے یہ میں ہی تھا۔‘‘ ۲… قصر خلافت قادیان کے گول کمرہ سے ملحق ایک اور کمرہ ہے۔ مرزامحمود احمد نے ایک نوجوان سے کہا: اندر ایک لڑکی ہے، جاؤ اس سے دل بہلاؤ۔ وہ اندر گیا اور اس کے سینے کے اہراموں سے کھیلنا چاہا۔ اس لڑکی نے مزاحمت کی اور وہ نوجوان بے نیل مرام واپس لوٹ آیا۔ مرزامحمود نے اس نوجوان کو کہا: تم بڑے وحشی ہو۔ جواباً کہا گیا کہ اگر جسم کے ان ابھاروں کو نہ چھیڑا جائے تو مزہ کیا خاک ہوگا۔ مرزامحمود نے کہا: لڑکی کی اس مدافعت کا سبب یہ ہے کہ وہ ڈرتی ہے کہ: ’’اس طرح کہیں اس نشیب وفراز کا تناسب نہ بدل جائے۔‘‘ ۳… ’’ایک دفعہ آپ کی بیگم مریم نے اس نوجوان کو خط لکھا کہ فلاں وقت مبارک عبادت گاہ (قادیان) کی چھت سے ملحقہ کمرہ کے پاس آکر دروازہ کھٹکھٹانا تو میں تمہیں اندر بلاوں گی۔ دروازہ کھلا تو اس نوجوان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ جب اس نے دیکھا کہ بیگم صاحبہ ریشم میں ملبوس سولہ سنگھار کئے موجود تھیں۔ اس نوجوان نے کبھی کوئی عورت نہ دیکھی تھی۔ چہ جائیکہ ایسی خوبصورت عورت۔ وہ مبہوت ہوگیا۔ اس نوجوان نے کہا کہ حضور اجازت ہے۔ انہوں نے جواب دیا۔ ایسی باتیں پوچھ کر کی جاتی ہیں۔ اس وقت نوجوان نے کچھ نہ کیا۔ کیونکہ اس کے جذبات مشتعل ہوچکے تھے۔ اس نے سوچا کہ ’’گرو جی کچہرے ہی میں نہال ہو جائیں گے۔‘‘ اس لئے اس وقت کنارہ کرنا ہی بہتر ہے۔ بیگم صاحبہ موصوفہ نے اس خط کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ جو اس نوجوان کولکھا تھا۔ اس نوجوان نے جواب دیا کہ میں نے اس کو تلف کر دیا ہے۔ تقسیم ملک کے بعد مرزامحمود احمد کے پرائیویٹ سیکرٹری میاں محمد یوسف صاحب اس نوجوان کے پاس آئے، کہا: میں نے سنا ہے کہ آپ کے پاس حضور کی بیویوں کے خطوط ہیں اور آپ اس کو چھاپنا چاہتے ہیں۔ اس