احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
۱… مولوی ظفر محمد صاحب قادیانی امت کے گسٹاپو (نظارت امور عامہ) میں ملازم تھے اور مولوی فرزند علی ان کے افسر اعلیٰ کے طور پر کام کر رہے تھے۔ یہ ان دنوں کا تذکرہ ہے جب خلیفہ جی مصری صاحب سے یدھ ہورہا تھا۔ جن لوگوں کو قادیان اور ربوہ کے نظام حکومت کے بارہ میں علم ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ وہاںہر کام، خواہ وہ کسی سطح پر ہو، خلیفہ جی کی اشیرباد اور اشارے کے بغیرنہیں ہوسکتا۔ مگر مرید سادہ بعض اوقات ’’حسن ظنی‘‘ کے چکر میں پھنس جاتا ہے اور پھر قادیانی طلسم ہوشربا کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا رہتا ہے۔ ظفر صاحب کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ خلیفہ جی نے سیکورٹی فورس کے نچلے عملہ کو بلاواسطہ یہ حکم دیا کہ مصری صاحب کی بیٹی ’’امتہ الرحمن‘‘ کو اغوا کر لیا جائے۔ انہی محافظین میں سے کسی نے مولوی ظفر صاحب کو بتایا کہ: ’’حضرت صاحب نے حکم دیا ہے کہ مصری صاحب کی بیٹی امتہ الرحمن کو اغوا کر لیاجائے۔‘‘ مولوی صاحب موصوف کو یقین نہ آیا کہ ’’ہمارے حضرت یہ کام بھی کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے اپنی اس بے یقینی کا ذکر اپنے افسر مولوی فرزند علی سے کیا اور اس نے فوراً مولوی ظفر محمد کی اس ’’ایمانی کمزوری‘‘ کی رپورٹ خلیفہ جی کو پہنچا دی اور اس طرح ان کا نام ’’مقربین‘‘ کی فہرست سے کٹ گیا۔ ۲… جرم بہرحال جرم ہے۔ خواہ وہ کھلے بندوں کیا جائے یا تقدس کی جعلی رداؤں میں لپٹ کر۔ جب خلیفہ جی کے نت نئے ’’معرکوں‘‘ کا چرچا بڑھنے لگا تو مولوی ظفر صاحب نے اپنے طور پر لڑکوں اور لڑکیوں کے بیانات لے کر انہیں ایک کاپی میں محفوظ کرنا شروع کر دیا۔ ایک دن وہ کاپی دفتر میں چھوڑ آئے اور مولوی تاج دین نے یہ کاپی اٹھا کر خلیفہ جی کو پہنچا دی اور اس طرح ’’خدا کے مقرر کردہ خلیفہ‘‘ کو یقین ہوگیا کہ مولوی ظفر محمد کا ایمان بہت کمزور ہوگیا ہے اور اس کا علاج یہ ہے کہ اس کا منہ بندکرنے کے لئے فوراً اس کا بائیکاٹ کر دیا جائے۔ کیونکہ ’’چپ کا روزہ‘‘ بعض قویٰ کی تقویت کے لئے خاصا مفید ہے۔ اب یہ بھی شبہ ہوا کہ کہیں انہوں نے کچھ ریکارڈ گھرمیں نہ چھپا رکھا ہو۔ اس شک کو دور کرنے کے لئے امور عامہ کے ذریعے مولوی صاحب کے گھر میں چوری کروائی گئی اور معمولی معمولی چیزیں بھی اٹھوا لی گئیں۔ انہی چیزوں میں سے مولوی صاحب کے بیٹے ناصر احمد ظفر کے بچپن کا ایک فریم شدہ فوٹو بھی ہے جو اب کچھ عرصہ ہوا مرزاناصر احمد پاپائے سوم نے ناصر احمد ظفر کو واپس کیا ہے۔مگر دانشمند مرید نے نہ تو اپنے والد سے دریافت کیا اور نہ مرزاناصر احمد سے کہ: ’’حضور میرا یہ بچپن کا فوٹو کس ’’معجزہ‘‘ کے نتیجے میں آپ کے گھر پہنچا ہے۔‘‘