احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
اور سب انسانوں کا خدا ہے۔ وہ کسی ایک انسان یا ایک خاندان کا خدا نہیں۔ بلکہ وہ ان انسانوں میں سے ہر ایک انسان کا خدا ہے جو ازل سے لے کر اب تک پیدا ہوئے اور پیدا ہوتے رہیں گے۔ ان میں سے کسی ایک انسان یا خاندان کو خصوصیت دنیا پر لے درجے کی جہالت اور سراسر گمراہی ہے۔ خداکا قرب کسی حسب نسب کی وجہ سے نہیں بلکہ عمل کی وجہ سے حاصل ہوسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی فارسی النسل کو جہنم کی آگ میں دھکیل دیا جائے۔ کسی کفدوش کے استقبال کے لئے جنت کے فرشتے حاضر کئے جاویں۔ پس ہم خود ابنائے فارس کے لئے دعاگو ہیں کہ خداتعالیٰ کو اس گمراہی سے نکالے اور ان میں سے ہر ایک کا انجام بخیر کرے۔ اے ابنائے فارس کے متوالو! اپنے گم کردہ ضمیر کی تلاش کرو۔ ہماری یہ باتیں کسی بعض کی وجہ سے نہیں۔ درد کی وجہ سے ہیں۔ اگر ابنائے فارس کا دامن نعروں، ریزولیوشنوں، انسانیت سوز مقاطعوں اور ظلم اور طاغوتی نظام سے پاک ہوتااور اگر وہ پاک طینت ہوتے تو ان پر جانثاری میں ہم کسی سے پیچھے نہ رہتے۔ احمدیتکے لئے ہمارے اسلاف نے اپنا خون تک پیش کیا ہے اور ابھی ربوے میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ جو اس بات کی شہادت دے سکتے ہیں کہ ہمارے دادا (مہروزار خاں عرف ملا میر وصاحبؒ) کی مشکیں کس کر اور گدھے سے ان کے پاؤں باندھ کر سنگلاخ راستوں پر قریہ بہ قریہ گھسیٹا گیا۔ یہاں تک کہ ان کی کھال اتر گئی اور راستے ان کے خون کی گلکاری سے لالہ زاربن گئے۔ پھر ان کے کانوں اور ہاتھوں میں میخیں ٹھونک کر جیل خانے کی دیوار سے لٹکا دیا گیا۔ ہم نے وہ داغدار کان اور ہاتھ خود اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ پھر اسی احمدیت کے لئے اب اس انسانیت سوز مقاطعہ کی وجہ سے جو تکالیف ہم نے اٹھائیں وہ نعرے لگانے والوں کو کیا معلوم۔ ہم پر پانی تک بند کر دیا گیا اور ہم مجبور کر دئیے گئے کہ اپنے گھر کے پاخانوں کو خود صاف کر کے غلاظت کو اپنے ہاتھوں باہر پھینکیں۔ ماں باپ اور بھائی بہنوں کو عمر بھر کے لئے ہم سے جدا کر دیا گیا اور اب کہیں جاکر محض خداتعالیٰ کے فضل سے ایسے سامان پیدا ہوگئے کہ خداتعالیٰ نے ۴۷ کے گڑبڑ کے دنوں میں ایک خاندان سے ہمارے رشتے قائم کر دئیے۔ جن سے کچھ باز پرس تو ہوئی مگر وہ خداکے فضل سے مقاطعہ کی دراز دستیوں کے اثر سے بہت دور رہائش پذیر ہیں۔ لیکن ان تمام چیرہ دستیوں کے باوجود کیا کوئی ہماری یہ تحریر پڑھ کر کہہ سکتا ہے کہ ہمارا ایمان متزلزل ہوگیا ہے۔ پس ہمیں کسی سے کوئی بغض وعناد نہیں۔ بالخصوص مسیح موعود کے اہل بیت سے بغض رکھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مگر اگر کوئی اس باغ کو ہی پامال کرنے لگ جائے۔ جو مسیح موعود نے لگایا ہے۔ خواہ وہ پامالی مسیح موعود کی اولاد کے ہاتھوں ہی کیوں نہ ہو رہی ہو تو ہم مجبور ہیں کہ احتجاج کریں اور اپنے بھائیوں کو