احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
کہ بے نماز لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ’’لا تقربو الصلوٰۃ‘‘ کا حکم قرآن مجید میں ہے۔ ہم اس پر عامل ہیں۔ یہی مقام تو مرزاقادیانی کے لاطائل دعاوی کو بیخ وبن سے اکھاڑنے والا اور آیت ’’لوتقول‘‘ کا مفسر ہے۔ اس لئے ہم اس مقام کو پورے طور پر ذیل میں درج کرتے ہیں۔ ’’میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے فرماؤں گا وہ سب ان سے کہے گا اور ایسا ہوگا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا جواب اس سے لوں گا۔‘‘ ’’لیکن وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اسے حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جاوے اور اگر تو اپنے دل میں کہے کہ میں کیونکر جانوں کہ یہ بات خداوند کی کہی ہوئی نہیں؟ تو جان رکھ کہ جب نبی خداوند کے نام سے کچھ کہے اور جو اس نے کہا ہے واقع نہ ہو یا پورا نہ ہو تو وہ بات خداوند نے نہیں کہی، بلکہ اس نبی نے گستاخی سے کہی ہے۔ تو اس سے مت ڈر۔‘‘ اب ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ یہ تمام پیش گوئی آنحضرت محمد مصطفیٰﷺ کے حق میں ہے جو مثیل موسیٰ علیہ السلام ہیں اور جو بنی اسرائیل کے بھائیوں بنی اسماعیل میں پیدا ہوئے۔ جن کی شان ہے۔ ’’ما ینطق عن الہوے ان ہوالّاوحی یوحیٰ‘‘ جن کا ہر قول اور ہر فعل ہمیشہ کے واسطے ایک پاک سنت قرار پایا جو روحانیت اور اخلاق میں اعلیٰ درجہ رکھتے ہیں۔ پس ان کا ہر فعل اور ہر قول تعلیم الٰہی کے مطابق ہونا ضروری تھا۔ اس لئے یہ آپ کے لئے مخصوص ہے کہ اگر وہ نبی گستاخی سے کوئی بات اپنی طرف سے خدا کے نام پر کہے تو قتل کیا جائے گا۔ اسی توراتی پیشگوئی کے مطابق ان یہود ونصاریٰ پر حجت قائم کی گئی ہے۔ جو آنحضرتﷺ کے حالات اور تعلیمات سے خوب واقف تھے۔ اکثر باتوں کو تسلیم کرتے اور بعض سے انکاری ہو جاتے تھے۔ ان کو پوری اطاعت اور کامل ایمان کے واسطے ارشاد ہوتا ہے کہ اس کی تمام باتیں جن کو یہ خدا کے نام سے کہتا ہے۔ فی الحقیقت خدا کی طرف سے ہیں۔ اگر گستاخی سے بعض باتیں اپنی طرف سے بنا کر خدا کی طرف منسوب کرتا تو قتل کیا جاتا۔ اگر اس خاص بات کو عام کیا جائے اور اس آیت کے یہ معنی لئے جائیں کہ جھوٹے نبی کی یہی شناخت ہے کہ قتل کیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ جو انبیاء علیہم السلام مقتول ہوئے۔ وہ سب جھوٹے تھے۔ ’’یقتلون الانبیاء بغیر حق (آل عمران:۱۱۲) وقتلہم الانبیاء (النساء:۱۵۵)‘‘ جو یہودیوں کی حالت میں وارد ہیں۔ شاہد ناطق ہیں کہ سچے نبی قتل ہوتے رہے۔ ورنہ قرآن مجید کا یہ بیان خلاف واقعہ ٹھہرتا