احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
مشاہدے اور تجربے کے سامنے ٹھہر سکے ہیں کہ یہاں ٹھہر جاتے۔ پھر سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ یہ الزامات لگانے والے کوئی غیر نہیں بلکہ خود قادیانی امت کے لئے جان اور مال کی قربانیاں دینے والے اور اپنے خاندان اور برادریوں سے اس کے لئے کٹ کر رہ جانے والے لوگ ہیں۔ کیا وہ محض قیاس اور سنی سنائی باتوں پر اتنا بڑا اقدام کرنے پر عقلاً تیار ہوسکتے ہیں۔ ہرگز نہیں، ہرگز نہیں۔ انسان جس شخصیت سے ارادت وعقیدت کا تعلق رکھتا ہے اس کے بارے میں اس نوع کے کسی الزام کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتا اور اگر وہ ایسا کرنے پر تل جاتا ہے تو پھر سوچنا پڑے گا کہ اس شخصیت سے ضرور کوئی ایسی ابنار مل بات سرزد ہوئی ہے کہ اس سے فدائیت کا تعلق رکھنے والے فرد بھی اس پر انگلی اٹھانے پر مجبور ہوگئے ہیں اور پھر یہ انگلی اٹھانے والے معمولی لوگ نہیں۔ ہر دور میں خاندان نبوت کے یمین ویسار میں رہنے والے ممتاز افراد ہیں۔ مرزاغلام احمد قادیانی کے اپنے زمانے میں مرزامحمود احمد پر بدکاری کا الزام لگا۔ جس کے بارے میں قادیانیوں کی لاہوری پارٹی کے پہلے امیر مولوی محمد علی کا بیان ہے کہ یہ الزام تو ثابت تھا۔ مگر ہم نے شبہ کا فائدہ دے کر مرزامحمود احمد کو بری کر دیا۔ پھر محمد زاہد اور مولوی عبدالکریم مباہلہ والے اور ان کے اعزہ اور اقرباء نے اپنی بہن ’’سکینہ‘‘ کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خلاف احتجاج کے لئے باقاعدہ ایک اخبار ’’مباہلہ‘‘ کے نام سے نکالا اور خلیفہ صاحب کے اشارے پر ’’میر قاسم علی‘‘ جیسے چھٹ بھٹیوں نے ان کے خلاف مستریاں مشین سویاں ایسی طعنہ زنی کر کے اصل حقائق کو چھپانے کی کوشش کی اس کے بعد مولوی عبدالرحمان مصری، عبدالرزاق مہتہ، مولوی علی محمد اجمیری، حکیم عبدالعزیز، فخرالدین ملتانی، حقیقت پسند پارٹی کے بانی ملک عزیز الرحمن، صلاح الدین ناصر بنگالی اور دوسرے بے شمار لوگ وقتاً فوقتاً مرزامحمود احمد اور ان کے خاندان پر اسی نوعیت کے الزام لگا کر علیحدہ ہوتے رہے اور بدترین قادیانی سوشل بائیکاٹ کا شکار ہوتے رہے۔ ملازمتوں سے محروم اور جائیدادوں سے عاق کئے جاتے رہے۔ مگر وہ اپنے مؤقف پر قائم رہے۔ کیا محض یہ کہہ کر کہ یہ قریب ترین لوگ محض الزام تراشی کرتے رہے۔ اصل حقائق پر پردہ ڈالا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی ماں پر بدکاری کا الزام لگاتا ہے تو فقط یہ کہہ کر اس کی بات کو رد کر دینا کہ دیکھو کتنا برا آدمی ہے۔ اپنی ماں پر الزام لگاتا ہے۔د رست نہ ہوگا۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس کی ماں نے گول بازار کے کس چوراہے میں بدکاری کی ہے کہ خود اس کے بیٹے کو بھی اس کے خلاف زبان کھولنا پڑی ہے۔ جس رفتار سے ان واقعات سے پردہ اٹھ رہا تھا۔ اسی سرعت سے میرے اعتقادات کی عمارت بھی متزلزل ہورہی تھی اور میری زبان ایک طبعی رد عمل کے طور پر ربوہ کی ہے کہ خود اس کے بیٹے کو بھی اس کے خلاف زبان کھولنا پڑی ہے۔ جس رفتار سے ان واقعات سے پردہ اٹھ رہا تھا۔ اسی سرعت سے میرے اعتقادات کی عمارت بھی متزلزل ہورہی تھی اور میری زبان ایک طبعی رد عمل کے طور پر ربوہ