احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
سربراہان قادیانیت عموماً اور مرزامحمود خصوصاً اس ڈرامے کے خصوصی کردار ہیں۔ اس لئے ان کے بہروپ کو نوچ پھینکنا اور لوگوں کو گمراہی کی دلدل سے نکالنا انتہائی ضروری ہے۔ ضمناً قادیان اور ربوہ کی اخلاقی حالت کا ذکر بھی آگیا ہے۔ اگر درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا تو قادیانیت یقینا ’’شجرۂ خبیثہ‘‘ ہے۔لاہور کی سڑکوں پر گھومنے والی ’’سلمیٰ حبشن‘‘ اور لنک میکلوڈ روڈ پر مقیم ’’حنیفاں‘‘ اس کی شاہد ہیں۔ قادیانی امت اپنے ’’نبی‘‘ کی اتباع میں اپنے ہر مخالف کی بے روزگاری، مصیبت اور موت پر جشن مناتی ہے اور اسے مطلقاً اس امر کا احساس نہیں ہوتا کہ یہ انتہاء درجہ کی قساوت قلبی، شقاوت ذہنی اور انسانیت سے گری ہوئی بات ہے۔ اﷲتعالیٰ نے قادیانی امت پر ایسا عذاب نازل کیا ہے کہ اب ان کا ہر قابل ذکر فرد ایسی رسوا کن بیماری سے مرتا ہے کہ اس میں ہر صاحب بصیرت کے لئے سامان عبرت موجود ہے۔ فالج کی بیماری کو خود مرزاغلام احمد قادیانی نے ’’دکھ کی مار‘‘ اور ’’سخت بلا‘‘ ایسے الفاظ سے یاد کیا ہے اور اب قادیانی امت کی گندی ذہنیت کی وجہ سے یہ بیماری اﷲ تبارک وتعالیٰ نے سزا کے طور پر قادیانیوں کے لئے کچھ اس طرح مخصوص کر دی ہے کہ ایک واقف حال قادیانی کا کہنا ہے: ’’اب توحال یہ ہے کہ جو شخص فالج سے نہ مرے وہ قادیانی ہی نہیں۔‘‘ مرزامحمود احمد نے اپنے باوا کی سنت پر عمل کرتے ہوئے امت مسلمہ کے اکابر اور جید علماء دین کے وصال پر جشن مسرت منایا اور ان کا یہ دھندا اب تک چل رہا ہے۔ اﷲتعالیٰ نے قادیانیت کے گوسالہ سامری مرزامحمود کو ’’فالج کا شکار‘‘ بناکر دس سال تک ’’رہین بستر وبالش‘‘ کردیا اور اس عبرتناک رنگ میں اس کو اعضاء وجوارح اور حافظہ سے محروم کردیا کہ وہ مجنونوں کی طرح سر ہلاتا رہتا تھا اور اس کی ٹانگیں بید لرزاں کا نظارہ پیش کرتی تھیں۔ گویا وہ ’’لایموت فیہا ولا یحیی‘‘ کی تصویر تھا۔ مگر قادیانی مذہبی انڈسٹری کے مالکان اس حالت میں بھی الٹا ’’اخبار‘‘ اس کے ہاتھ میں پکڑا کر ’’زیارت‘‘ کے نام پر مریدوں سے پیسہ بٹورتے رہے اور پھر سات بجے شام مر جانے والے اس ’’مصلح موعود‘‘ کی دو بجے شب تک صفائی ہوتی رہی اور ’’سرکاری اعلان‘‘ میں اس کی موت کا وقت دو بج کر دس منٹ بتایا گیا اور اس عرصہ میں اس کی الجھی ہوئی داڑھی کو ہائیدروجن یا کسی اور چیز سے رنگ کر اسے طلائی کلر دیا گیا اور خط بنایا گیا اور غازہ لگا کر اس کے چہرے پر ’’نور‘‘ وارد کیاگیا۔ تاکہ مریدوں پر اس کی ’’اولیائی‘‘ ثابت کی جا سکے۔ حیرت ہے کہ جب کوئی مسلمان دنیاوی زندگی کے دن پورے کر کے اﷲتعالیٰ کے حضور پیش ہوتا ہے تو قادیانی اس کی بیماری کو ’’عذاب الٰہی‘‘ قرار دیتے ہیں۔ لیکن ان کے اپنے اکابر ذلیل موت کا شکار بنتے ہیں تو یہ ’’ابتلاء‘‘ بن جاتا ہے اور اس کے لئے دلائل دیتے ہوئے قادیانی تمام وہ روایات پیش