احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
اور کالے پادری سربازار پھر وہی مرغے کی ایک ٹانگ کا راگ الاپے چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے مخالف بھی انہی باتوں کے معقول جوابات ہزاروں دفعہ سن کر پھر وہی بات رٹے چلے جاتے ہیں۔ اگر ڈاکٹر صاحب میں کچھ دیانت اور امانت کی بو ہوتی تو ان کو مناسب تھا کہ اوّل ان لوگوں کی فہرست پیش کرتے۔ جنہوں نے قیمت پیشگی دی تھی۔ جو چند ایک معدود آدمی تھے اور پھر اس کے مقابل میں ان لوگوں کی فہرست بھی رکھ لیتے جن کو کتاب مفت تقسیم کی گئی تھی یا صرف برائے نام قیمت پر اور پھر اس زمانہ میں لکھائی، چھپائی، کاغذ وغیرہ کے خرچ کا اندازہ کرتے۔ کیونکہ اس زمانہ میں قادیان میں کوئی مطبع نہ تھا۔ کام امرتسر میں چھپتا تھا۔ ریل بھی نہ تھی۔ پھر حضرت صاحب کے اشتہار پر جن لوگوں نے قیمتیں واپس لے لیں ان کی فہرست پیش کرتے۔ پھر اس کتاب کے ذریعہ سے غیر مسلمین پر جو حجت قائم ہوچکی ہے اس کی طرف نگاہ کرتے۔ پھر اسی براہین کے معاملہ میں مخالفین کو جو جواب وہ خود (خواہ صدق دل سے خواہ منافقانہ طور پر) دیا کرتے تھے ان پر ہی غور کر لیتے تو ان کو اس قدر دکھ نہ اٹھانا پڑتا۔ خیر اس پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے اور ایسا ہی حضرت صاحب کے پاس چندوں کے بہت آنے، یا گھر میں زیور کے ہونے پر جو کچھ مارے حسد کے ڈاکٹر صاحب یا ان کے ہم خیالوں کے سینوں کے اندر نار جہنم شعلہ زن ہے۔ اس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور لکھا جاسکتا ہے۔ جس کے واسطے سردست گنجائش نہیں۔ میں نے اس وقت ایک نہایت مختصر لیکن ضروری بات کے لکھنے کے واسطے قلم اٹھایا ہے اور وہ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اسی مضمون میں جہاں لنگر اور مدرسہ اور میگزین اور الحکم کو بڑے بڑے چندے دینے کا احسان بتلایا ہے۔ وہاں اس اخبار کو بھی پانچ روپے سالانہ چندہ عطاء کرنے کا ممنون احسان بتایا ہے۔ حضرت کے پاس جو چندہ آتا ہے اس کا تو کوئی حساب نہیں رکھا جاتا۔ کوئی اپنی خوشی سے کچھ حضرت کے پیشکش کرتا ہے تو وہ لیتے ہیں۔ ورنہ وہ کبھی کسی سے نہ مانگتے ہیں نہ جتلاتے۔ اس واسطے اس کے متعلق ڈاکٹر صاحب کو ہزاروں چھوڑ لاکھوں کا جھوٹ بولنے کی بھی گنجائش ہے۔ مدرسہ کا انتظام بھی کچھ مدت عاجز کے پاس رہا تھا۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ڈاکٹر صاحب کے نام پر کبھی کوئی اسی رقم دیکھی گئی ہو جس پر وہ ڈینگیں مار رہے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کے ان تمام دعوؤں کی حقیقت کی مثال میں صرف اس اخبار کے ہی دلیرانہ جھوٹ کا افشاء کرنا کافی ہوگا۔ آج ڈیڑھ سال سے اخبار بدر کا چارج میرے پاس ہے اور آج تک اخبار برابر ڈاکٹر صاحب کو بھیجا جاتا ہے۔ ۱۹۰۵ء اور ۱۹۰۶ء کے چندے میرے سامنے لوگوں سے وصول ہوئے ہیں۔ بلکہ ۱۹۰۷ء کی بھی پیشگی قیمت بعض سے وصول ہو رہی ہے۔ لیکن اس ڈیڑھ سال کے عرصہ میں ڈاکٹر