احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
کام حاصل کر لیا اور اپنی رہائش ایک واقفیت کی بناء پر کسی دوست کے ساتھ ربوہ میں اختیار کر لی اور ہر رات کو خود بھی وہاں آجایا کرتا تھا۔ ربوہ میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کے افسران اور ان کے متعلقہ عملہ سے بہترین تعلقات قائم کرلئے۔ گو ان کی طرف سے ناجائز فرمائشیں بھی ہوا کرتی تھیں اور میں محض تقدس کے ماتحت ان کی فرمائشیں پوری کر دیا کرتا تھا۔ کیونکہ مذہبی طور پر ان لوگوں کو حق بجانب خیال کیا جاتا تھا۔ مگر قابل برداشت حد تک آخر کار مجھے ٹی۔آئی ہائی سکول ربوہ کی عمارت بنانے کا ٹھیکہ مل گیا۔ تب میں نے اپنے میٹریل سے انجمن کی عارضی زمین پر اپنا رہائشی مکان تعمیر کر لیا اور اپنی مکمل ذمہ داری پر اس کی تعمیر شروع کر دی۔ تب تک میرے محترم حضرت صاحب کوئٹہ تشریف لے جاچکے تھے۔ سرکاری کام کو اپنے منشی کے سپرد کیا جو کہ اس کام کو چلا نہ سکا اور میں نے اس کام پر توجہ دینا اپنے لئے ناممکن خیال کیا۔ کام بند کر دیا گیا۔ اب سلسلہ کے ان افسران سے بھی ویسے ملاقات کرنے کا وقت نہ ملتا تھا۔ کیونکہ میرے نزدیک سب سے ضروری فرض سلسلہ کی تعمیر پر نگرانی کرنا تھا۔ میرے اس فرض کے ماتحت ان افسران کو میرا وہاں ان کے در دولت پر حاضر نہ ہونا یقینا ناپسند آیا اور تعمیر افسر صدر انجمن احمدیہ ربوہ نے میرے دئیے ہوئے ٹینڈر پر میرے نام کے کام کا ایک حصہ اپنے ایک دوسرے ٹھیکیدار کو خود بخود دے دیا اور تعمیر کا میٹریل براہ راست اس دوسرے ٹھیکیدار کو سپلائی کیا جاتا تھا۔ پانی کی بھی سخت تکلیف دی گئی۔ اپنی ضرورت کے مطابق اپنے لئے میٹریل مجھے خود سپلائی کرنا پڑا۔ جو کہ معاہدہ کے خلاف تھا اور میرے لئے یہ کام سخت تکلیف دہ تھا۔ کیونکہ ہر کام جس کو کرنا پڑا وہ فوری ضرورت کے ماتحت ہوا اور بہت رکاوٹوں سے ہوا۔ افسران نے باقاعدہ مصدقہ طور پر کام کا ایگریمنٹ بھی نہ کیا۔ حالانکہ باربار تحریری طور پر اس ضرورت کا اظہار کیا۔ مگر ہر وقت وعدوں پر ٹال مٹول ہوتی رہی۔ تعمیری کام میں جو مشکلات دی گئیں مختلف افسران کو مختلف اوقات میں موقع پر اس تکلیف کی اطلاع دی اور اس کے نقصانات کااظہار کیا۔ حالانکہ باربار تحریری طور پر اس ضرورت کا اظہار کیا۔ مگر کسی نے کوئی توجہ نہ دی اور کسی طریقے سے بھی کوئی مشکل حل نہ ہوئی۔ بلکہ ان میری تکلیفات میں ہمیشہ اضافہ ہوتا چلا گیا۔ جس قسم کے تعلقات یہ احمدیہ حضرات مجھ سے چاہتے تھے۔ وہ مجھے یقینا پسند نہ تھے۔ کیونکہ محض ایمانداری اور نیک نیتی کے ماتحت اپنے مرکز میں کام شروع کیا تھا۔ اگر دنیادارانہ طریقہ پر ہی کام کرنا تھا تو پھر دنیا بہت تھی۔ اس مقام کو تو دین کا مرکز سمجھا اور دینداری طریقہ پر کام کرنا پسند تھا۔