احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
یہ تو وہ ہی ناپاک اصول ہیں جس پر سید احمد خاں کی موت ہوئی۔ کیونکہ آخری عقیدہ ان کا جو اس دنیا سے لئے گئے یہی تھا کہ جیسا کہ ایک مسلمان خدا کو واحد لاشریک جانے والا نجات پائے گا۔ ایسا ہی ایک عیسائی خدا کو تین کہنے والا نجات پائے گا۔ اس صورت میں تو آپ عیسائی مذہب کے بڑے ممدومعاون ہیں اور یہ سب لوگ آپ کے بھائی ہیں۔ گویا آپ کے نزدیک نعوذ باﷲ خدانے یہ جھوٹ بولا: ’’ومن یبتغ غیر الاسلام دیناً لن یتقبل منہ وہو فی الاٰخرۃ من الخاسرین‘‘ یعنی جو شخص بغیر دین اسلام کے کسی اور دین کو اختیار کرے گا تو ہرگز وہ دین اس سے قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں زیاں کاروں میں سے ہوگا اور پھر اﷲتعالیٰ آنحضرتﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے۔ ’’قل ان۱؎ کنتم تحبون اﷲ فاتبعونی ۱؎ یہ ایک علیحدہ امر ہے۔ متنازعہ فیہ امر مدار نجات ہے۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ اتباع محمدیﷺ نجات کا سیدھا صاف اور آسان راستہ ہے۔ مگر یہ نہیں کہ اس بے انت ذات کے تمام قوانین رحمت ومغفرت ایک انسان کے ہی تابع ہوگئے۔ خداوند عالم کی توہین اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ اس کا ماننا اور اس کی عطاء کردہ عقل اور فطرت کے مطابق اعمال صالحہ کرنا اور بدی سے بچنا موجب نجات نہیں ہوسکتے۔ تاوقتیکہ ایک انسان کو ساتھ نہ مانا جائے۔ میں سخت افسوس کے ساتھ ظاہر کرتا ہوں کہ آپ کو اپنی کبریائی کے نشہ میں کلمہ حصر کی بھی تمیز نہیں رہی جو یہ آیت پیش کردی۔ ایسی آیات تو ہزاروں قرآن مجید میں ہیں جن سے عام طور پر ثابت ہوتا ہے کہ نجات تزکیہ نفس سے ملتی ہے نہ کہ مرزا غلام احمد کے ماننے سے۔ مثلاً: ’’امّامن خاف مقام ربہ ونہی النفس عن الہویٰ فان الجنت ہی الماوٰی۰ قد افلح من زکّہا وقد خاب من دسہا۰ ان اﷲ لا یضیع اجر المحسنین۰ فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یراہ ومن یعمل مثقال ذرۃ شریرہ ان الا برار لفی نعیم وان لفجار لفی جحیم‘‘ الغرض یہ ایک مسئلہ کہ آپ کے ماننے پر نجات منحصر ہے۔ ایسا خبیث اور باطل ہے کہ اس سے ساری خدائی باطل ٹھہرتی ہے۔ (اوّل) تو یہ ربوبیت باری تعالیٰ کے خلاف ہے۔کیونکہ جس قدر کسی شے کی زیادہ ضرورت ہے۔ اسی قدر رب العالمین نے وہ چیز زیادہ عام کی ہے۔مثلاً ہوا اور پانی۔ پس اگر آپ کے ماننے پر نجات کا انحصار ہوتا تو رب العالمین اپنی قدرت سے اس کا ایسا انتظام کرتا کہ ہر ایک شخص کی فطرت میں جیسا کہ اس کی ربوبیت منقوش ہے۔ ویسا ہی مرزاغلام احمد مسیح بھی منقوش ہو جاتا۔ بلکہ زمین وآسمان میں گنجار پڑ جاتی کہ نجات کا مدار غلام احمد کے ماننے پر ہے۔ اس پر ایمان لانے کے بغیر توحید، عبادت اور اعمال سب باطل ہیں۔ (دوم)ایسا ایمان رحمانیت کے منافی ہے۔ کیونکہ الرحمن نے ہر حیوان کو اس کے مطابق حال اعضائے اور علوم دئیے ہیں۔ مثلاً ہر حیوان فطرتی طور پر اپنی غذا اپنے طریق بودوباش اور اپنے اپنے کاموں کو جانتا ہے۔ ایسا ہی ہر انسان چلنا پھرنا، دیکھنا سننا، سونا جاگنا، فطرتاً جانتا ہے اور نیکی وبدی پہچانتا ہے۔ مگر یہ ایمان کہ مرزاغلام احمد کا ماننا نجات کے واسطے لازمی ہے۔ کسی کی فطرت میں نہیں۔ (سوئم)یہ ایمان رحمیت باری تعالیٰ کا منافی ہے کہ جب تک کوئی انسان مرزاغلام احمد پر ایمان نہ لائے۔ اس وقت تک اس کا رحم ممکن نہیں۔ (چہارم)یہ ایمان مالک یوم الدین کا معطل کنندہ ہے۔ کیونکہ نجات مرزاغلام احمد قادیانی کے ہی ماننے نہ ماننے پر منحصر ہے۔ (پنجم)یہ ایمان تام خدائی اور فطرت اﷲ کا باطل کنندہ ہے۔ غور کرو مساوات جبریہ پر۔ پس: خدا کا ماننا + اعمال صالحہ + مرزا پر ایمان = نجات (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)