احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
طرح سے حتی الامکان تنگی کر کے اپنی تنخواہ اور مفید عام کی آمد سے یہ کام کیا اور مشکل آسان جس قدر ممکن ہو سکا۔ لنگر اور اسلامیہ سکول قادیان میں چندہ بھی ادا کرتا رہا۔ اگرچہ میں زیربار بھی ہوا اور مقروض بھی ہوا اور میری بیویاں اور بچے کھانے پہننے میں بہت تنگ ہوئے۔ مگر میںنے اس اسلامی خدمت کو ہی مقدم سمجھا۔لوگوں نے مجھے یہ بھی نصیحت کی اور خطوط بھی بکثرت آئے کہ اگر مرزاقادیانی کے متعلق اس میں سے مضامین نکال دئیے جائیں تو اس تفسیر کی اشاعت ہزاروں تک پہنچ سکتی ہے۔ بلکہ بعض مسلمان مشزیوں نے اپنی زندگی اس کی امداد میں وقف کرنی ظاہر کی۔مگر میں نے تو کل بخدا ان تمام باتوں کو نظر انداز کیا اور خلاف ایمان کوئی بات نہیں کی۔ خواہ ظاہری نظر میں لاکھوں کا نقصان نظر آیا۔ مگر اﷲ کریم کے اندرونی امدادوں پر بھروسہ رہا اور ہے۔ اﷲ کریم میرے ساتھ سے میری مخلصانہ اور بے ریأ خدمتوں کو وہ خوب جانتا ہے۔ ’’وکفٰے باﷲ حسیبا وکفٰے باﷲ وکیلاً۰ وکفٰے باﷲ علیماً‘‘ میری بے ریأ خدمت بہتوں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہوئی۔ اس لئے مجھے اس قدر ظاہر کرنے کی ضرورت پڑی۔ اگر میرے ان عقائد اور اعمال میں غلطی ہے تو براہ کرم وترحم قرآنی بیّنات سے صاف طور پر مجھ پر ظاہر فرمادی جائے تاکہ میں اس کی اصلاح کر سکوں۔ جو کچھ میں نے ظاہر کیا وہ صدق اور خلوص کے ساتھ علیٰ وجہہ البصیرت ایک مشہودی علم کے طور پر عرض کیا ہے۔ پیر پرستوں اور ست بچنیوں کے طریق پر کوئی بات نہ میرے اندر اثر کرتی نہ کسی اور راست مؤمن کے اندر اثر کر سکتی ہے۔ اگر استمساک بالقرآن اور استمساک بالفطرت ہے۔ قابل اعتبار رہبر نہیں تو پھر اور کیا شے رہبر ہوسکتی ہے۔ نہیں کوئی نہیں، ہرگز نہیں۔ اگرچہ میں سخت سیاہ کار ہوں۔ مگر خداوند کریم کی رحمت کو میں بدرجہا وسیع اور غافر پاتا ہوں۔ اگر صدق اور خلوص کے ساتھ میں غلطی بھی کر بیٹھوں تو اﷲ کریم معاف کرنے والا ہے۔ تو برائے وصل کردن آمدی نہ برائے فصل کردن آمدی ’’بل تؤثرون الحیوۃ الدنیا یایہا الناس اعبدوا ربکم الذی خلقکم‘‘ پس اس قدر مختصر عرضداشت کے بعد میں خدا پر توکل کرتا ہوں۔ والسلام! رات پھر میری زبان پر یہ آیت جاری ہوئی۔ ’’یا ایہا النفس المطمئنۃ الرجعی الیٰ ربک راضیۃ مرضیۃ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی‘‘