احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
میری جماعت پر تہمت لگائی ہے کہ وہ ایسے۱؎ ہی بے عمل ہیں جیسے دوسرے، یہ آپ نے سخت ظلم کیا۔ میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ ہماری تھوڑی سی جماعت میں ہزارہا ایسے آدمی موجود ہیں جو متقی اور نیک طبع اور خداتعالیٰ پر پختہ ایمان رکھتے ہیں اور دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہیں اور ہے کہ یہ جو ہم نے ’’دوسرے مدعیان اسلام سے قطع تعلق‘‘ کیا ہے۔ اوّل تو خدا تعالیٰ کے حکم۲؎ سے تھا نہ اپنی طرف سے اور دوسرے وہ لوگ ریاپرستی اور طرح طرح کی خرابیوں میں حد سے بڑھ گئے ہیں اور ان کو ان کی ایسی حالت کے ساتھ اپنی جماعت کے ساتھ ملانا یا ان سے تعلق رکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ ’’عمدہ اور تازہ دودھ میں بگڑا ہوا دودھ ڈال دیں۔ جو سڑ گیا ہے اور اس میں کیڑے پڑ گئے ہیں۔‘‘ اسی وجہ سے ہماری جماعت کسی طرح ان سے تعلق نہیں رکھ سکتی اور نہ ہمیں ایسے تعلق کی حاجت ہے۔ چونکہ آپ محض نام سے ہماری بیعت میں داخل ہوئے تھے اور حقیقت سے سراسر بے خبر اس لئے آپ کو نہ یہ معلوم ہے کہ ایمان کس کو کہتے ہیں اور اﷲ کس کا نام ہے اور نہ یہ خبر کہ اسلام کی حقیقت کیا ہے؟ اس لئے آپ کو سخت لغزش اور لغزش بھی ایسی کہ ارتداد تک پہنچ گئے۔ لیکن اﷲتعالیٰ کو کسی کی پروا نہیں۔ اگر ایک مرتد ہوجائے تو اس کی عوض میں ہزارہالے آئے گا۔ آپ کا خط ا۳؎خبار میں شائع کرنے کے لائق نہیں۔ بلکہ ایک ایک حرف اس کا رد کرنے کے لائق ہے۔ جو خداتعالیٰ کے سلسلہ سے ایسا مخالف ہے جیساکہ روح القدس کا مخالف اور آپ نے ’’جو الہام ذکر کئے ہیں یہ سب شیطانی ہیں‘‘ اور آپ کو خداتعالیٰ سے ڈرنا چاہئے اور جلد توبہ کرنا چاہئے کہ موت کا کچھ بھی اعتبار نہیں اور خدا کے سلسلہ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ بجز اس کے کہ اپنا خاتمہ بد کر لیں اور نامرادی کی موت سے مریں اور آپ کا یہ۴؎ کہنا کہ فطرتی ایمان کافی ہے۔ نشانوں کی ضرورت نہیں۔ آپ کو یاد رہے کہ فطرتی ایمان ایک لعنتی چیز ہے۔ جب تک اس کو نشانوں سے قوت نہ ملے۔ خاکسار: مرزاغلام احمد قادیانی! ۱؎ یہ تہمت نہیں واقعی امر ہے۔ آپ مختلف شہروں اور مقامات میں پھر کر ملاحظہ فرماویں اور ان کے چلن اور رسومات کی تحقیق کریں۔ پھر دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مقابلہ کرکے معلوم کریں کہ کس قدر تفاوت ہے۔ قادیان میں بیٹھے ہوئے ان کے اندرونی حالات کیسے معلوم ہوسکتے ہیں۔ ۲؎ براہ کرم اس حکم کے الفاظ تو درج فرمائے ہوتے۔ تاکہ معلوم ہوجاتا کہ وہ حکم خاص مکفرین و ملحدین کے لئے ہے یا بلا استثناء تمام امت محمدیہ مرحومہ کے واسطے وہ قرآن اور ربوبیت عامہ کے موافق ہے یا مخالف۔ میرے خط کا جواب تو بطور اعلان شائع فرمادیا گیا۔ مگر کوئی خط ساتھ ہی شائع نہ فرمایا تاکہ کسی کو غور کرنے کا موقعہ مل جاتا کہ دراصل وہ گالیاں ہیں یا عظمت وجلال باری تعالیٰ کی وکالت اور پردہ وحمایت۔ (بقیہ حاشیہ نمبر ۳و۴، اگلے صفحہ پر)