احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
آپ دین اسلام سے بھی منہ پھیر رہے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ ہر ایک شخص جو یہود اور نصاریٰ اور دوسری قوموں سے اﷲ پر ایمان لائے اور اپنے طور پر نیک عمل کرے تو نجات پانے کے لئے یہی عمل اس کے لئے کافی ہے۔ اگر ان آیات کے یہی معنی ہیں تو گویا آنحضرتﷺ نے بڑی غلطی کی کہ دین اسلام کی دعوت کے لئے زمین میں خون کی نہریں۱؎ چلادیں۔ کیا یہودی آپ کے قول کے موافق اﷲ پر ایمان نہیں لائے تھے یا تمام عیسائی عیسیٰ پرستی میں ہی غرق تھے؟ خدا نے تو صاف فرمادیاہے: ’’ان الدین عند اﷲالاسلام ومن یبتغ غیر الاسلام دینا لن یقبل منہ وہم فی الاٰخرۃ من الخاسرین‘‘ یعنی دین اسلام ہی ہے اور جو شخص بجز اسلام کے کسی اور دین کا خواہاں ہے وہ مردود ہے۔ مگر آپ کے قول کے موافق مومن بننے کے لئے آنحضرتﷺ پر ایمان لانا شرط نہیں ہے۔ اگر ایک شخص آنحضرتﷺ کا منکر ہے مگر اﷲتعالیٰ پر ایمان رکھتا ہو۔ وہ نجات یافتہ ہے۔ یہ عقیدہ ایک ’’سخت گمراہ سید احمد خاں‘‘ کا تھا۔ جس کا آخری مقولہ یہ تھا کہ اگر عیسیٰ کو کوئی خدا بھی کہے تب بھی کوئی حرج نہیں۔ عیسائی بھی ایسے ہی نجات یافتہ ہیں جیسے مسلمان۔ بلکہ بقول اس کے دہریہ بت پرست، سب نجات یافتہ ہیں اور جو آپ نے ۱؎ آنحضرتﷺ نے ایک جنگ بھی دعوت اسلام کے لئے نہیں کیا بلکہ حفاظت اسلام کے لئے تھا۔ جن اندفاعی جنگوں میں مجبوراً آپ کو شامل ہونا پڑا وہ محض اس نیت سے تھے کہ خداوند عالم کا عظمت وجلال دنیا میں قائم ہو جائے۔ تمام مشرکانہ اور بدرسومات مٹ جائیں اور ان کی بجائے توحید اور نیکی قائم ہو جائیں۔ آپ نے یہ کبھی نہیں فرمایا کہ جو یہود ونصاریٰ خداپرست اور نیک چلن ہیں۔ اگر مجھ کو نہیں مانیں گے تو وہ نجات نہیں پائیں گے۔ بلکہ ان کی یہی دعوت کی ’’تعالوا الیٰ کلمۃ سوآء بیننا وبینکم ان لا تعبدو الا اﷲ ولا اشرک بہ شیا‘‘ ایک بات کی طرف آجاؤ جو ہم میں اور تم میں برابر ہیں۔ یعنی ہم اﷲ کے سوائے اور کسی کی عبادت نہیں کریں اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور فرمایا: ’’من قال لا الہ الا اﷲ فدخل الجنۃ‘‘ اور فرمایا: ’’ولو انہم اقامو التورات والانجیل وما انزل الیہم من ربہم لا کلوا من فوقہم ومن تحت ارجلہم‘‘ اگر وہ لوگ تورات اور انجیل کو قائم کریں اور ان صحیفوں کو جو ان پر ان کے رب کی طرف سے نازل ہوئے تو ان کو اوپر سے رزق ملے اور پاؤں کے نیچے سے بھی۔ (یعنی آسمانی اور زمینی رزق ملیں) اور فرمایا: ’’بلیٰ من اسلم وجہہ ﷲ ومحسن فلہ اجرہ عند ربہ‘‘ بلکہ جواپنے آپ کو اﷲ کے قربان کردے اور نیکی کرنے والا ہو۔ اس کے واسطے اس کے رب کے پاس اجر ہے۔ الغرض تمام قرآن مجید حمد الٰہی سے گونج رہا ہے اور توحید وتزکیہ نفس کو ہی مدار نجات قرار دیتا ہے نہ کہ محمد پر ایمان لانے کو یا مسیح پر اگر کہیں کہا ہو تو وہ آیت بتلائی ہوتی… آنحضرتﷺ نے جو بڑے سے بڑا خطاب یا عہدہ اپنے لئے شائع کیا وعبدہ ورسولہ ہے نہ کہ مدار نجات۔ آپ کی طرح آنحضرتﷺ نے کہیں نہیں فرمایا کہ عام دنیا میں جس قدر موحد، خدا پرست اور نیک بندے ہیں وہ سب کے جہنمی ہیں۔ جب تک مجھ پر ایمان نہ لائیں۔