احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
سوشل بائیکاٹ میں صرف لین دین ہی منع نہیں۔ بلکہ کسی سے کسی قسم کا تعلق رکھنا، اس کے گھر جانا، حتیٰ کہ رشتہ تک کرنا ممنوع ہے۔ اس ضمن میں یہ ارشاد ملاحظہ فرمائیں: ’’میں چوہدری عبداللطیف کو اس شرط پر معاف کرنے کو تیار ہوں کہ آئندہ اس کے مکان واقع نسبت روڈ پر وہ افراد نہ آئیں جن کا نام اخبار میں چپ چکا ہے… چوہدری عبداللطیف نے یقین دلایا کہ میں ذمہ لیتا ہوں کہ وہ آئندہ اس جگہ پر نہیں آئیں گے اور میں نے اس کو کہہ دیاہے کہ جماعت لاہور اس کی نگرانی کرے گی اور اگر اس نے پھر ان لوگوں سے تعلق رکھا یا، اپنے مکان پر آنے دیا تو پھر اس کی معافی کو منسوخ کر دیا جائے گا۔‘‘ (الفضل مورخہ ۲۲؍نومبر ۱۹۵۶ء) اسی طرح خلیفہ نے اپنے ایک رشتہ دار ڈاکٹر علی اسلم کی بیگم امتہ السلام کا سوشل بائیکاٹ کرتے ہوئے اپنی بہو کو جو امتہ السلام کی ہمشیرہ ہے یہ دھمکی دی تھی کہ: ’’اب اگر تنویر بیگم جو میری بہو ہے۔ الفضل میں اعلان نہ کرے کہ میرا اپنی بہن سے کوئی تعلق نہیں تو میں اس کے متعلق الفضل میں اعلان کرنے پر مجبور ہوں گا کہ لجنہ (قادیانی عورتوں کی انجمن) اس کو کوئی کام سپرد نہ کرے اور میرے خاندان کے وہ افراد جو مجھ سے تعلق رکھنا چاہتے ہیں اس سے تعلق نہ رکھیں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۲۱؍جون ۱۹۵۷ء) چنانچہ خلیفہ کا یہ اعلان شائع ہونے کی دیر تھی۔ فوراً تنویر الاسلام نے سوشل بائیکاٹ کے ڈر سے اپنی بہن کے خلاف یہ اعلان الفضل میں شائع کرادیا۔ ’’ڈاکٹر سید علی اسلم صاحب (حال ساکن نیروبی) اور سیدہ امتہ السلام، (بیگم ڈاکٹر علی اسلم) نے جماعت کے نظام کو توڑنے کی وجہ سے میرے رشتہ کو بھی توڑ دیا ہے۔ لہٰذا آئندہ ان سے میراکسی قسم کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔‘‘ (الفضل مورخہ ۲۵؍جون ۱۹۵۷ء) یہ ہیں چند مثالیں سوشل بائیکاٹ وغیرہ کی جن کی طرف تمام ملکی اخبار اور جرائد نے ارباب بست وکشاد کی توجہ دلائی اور خصوصاً نوائے وقت نے بھی اس ریاست اندر ریاست کے کھیل کو ختم کرنے کا حکومت پر زور دیا۔ مگر یہ آواز بھی صدا بصحراء ثابت ہوئی۔ کیونکہ گورنمنٹ نے اس وقت تک اس ریاست کے بارہ میں کوئی واضح اور ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔ یہاں ہم یہ بات واضح کر دینا ضروری خیال کرتے ہیں کہ خلیفہ ربوہ ہر اس آدمی کو شدید نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے جو ان کے احکام کی تعمیل نہ کرے اور ان کی مخالفت کرے۔ چنانچہ انہی دنوں اسی سوشل بائیکاٹ پر عمل نہ کرنے کے سبب اور سوشل بائیکاٹ کئے گئے افراد کو اشیاء خوردونوش مہیا کرنے کے جرم کی پاداش میں اﷲ یار بلوچ پر قاتلانہ حملہ کیاگیا جس کا مقدمہ چل رہا ہے۔