احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
فصیح الدین نے اس واقعے کے بیان کرنے کے دوران کہا: مرزابشیر احمد کا حسین بیٹا مرزاحمید بھی مجھ سے لوطی ذوق کی تسکین کیا کرتا تھا۔ ایک دن جب اپنا ذوق شہوت پورا کرچکا تو میں نے کہا آپ کے والد مرزابشیراحمد بھی مجھے اسی ذوق کی تسکین کے لئے بلایا کرتے ہیں۔ حمید نے کہا میرا نام تو نہیں بتایا۔ فصیح کہنے لگا میں نے سرسری طور پر آپ کو بتایا ہے۔ آپ کے نام کا کبھی ذکر نہیں کیا۔ یہ واقعہ فصیح الدین نے مجھ سے خود بیان کیا اور یہ بھی بیان کیا تشکیل پاکستان کے بعد جب کہ میری عمر تباہ اور مستقبل تاریک ہوچکا تھا۔ شکایت کے طور پر میں نے مرزامحمود احمد کو اپنے دکھ کی کہانی لکھی اور ساتھ یہ بھی لکھا میں اب دیکھتا ہوں کہ آپ کیا انصاف کرتے ہیں۔ اس شکایت میں عبدالسلام اختر ایم۔اے کا بھی ذکر کیا تھا۔ انصاف کیا دینا تھا جب ۱۹۵۶ء میں حقیقت پسند پارٹی والوں نے اخبارات میں مرزمحمود احمد پر الزمات کی بھرمار کر دی تو امور عامہ کا ایک کارکن میرے پاس آیا اور کہا۔ مجھے مرزابشیراحمد کے اعلیٰ کردار کا مالک ہونے کے بارے میں چند سطور لکھ دو۔ میں نے کہا۔ بھئی میری چند سطور لکھنے سے بھلا مرزابشیراحمد کا اخلاقی رتبہ کیا بڑھے گا۔میں تو ایک چھوٹا سا آدمی ہوں۔ کسی عالم فاضل واقف کار سے لکھوائیے۔ کہنے لگا نہیں آپ ہی لکھ کر دیں۔ فصیح الدین کہنے لگا۔ بھلا ان کارکنوں اور بھیجنے والوں سے کوئی یہ پوچھے کہ جو مجھ سے لکھوارہے ہو۔ یہ بات خود مرزابشیراحمد کے حقیقی روپ کو ظاہرکر رہی ہے۔ لگتے ہاتھ مغل شہزادہ حمید احمد کا ایک مزید واقعہ سن لیجئے۔ وہ لوطی فعل کے لحاظ سے قادیان میں مشہور تھا اور سکول کالج اور ہوسٹل کے اردگرد منڈلاتا رہتا تھا۔ منظور احمد میاں چنوں کا ایک حسین لڑکا تھا۔ قادیان میں پڑھتا تھا۔ جو ’’بلیک بیوٹی‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ گورنگ ذرا سنولا تھا۔ لیکن نقش تیکھے، آنکھیں موٹی، ران ابھرے ہوئے تھے۔ لوطی ذوق والے شخص کو اپنی زلف محبت کا اسیر بنالیتا تھا۔ مرزاحمید احمد کی بھی اس پر نظر پڑی توفریفتہ ہوگیا۔ منظور احمد نے ایک دوست سے بیان کیا کہ میرے پیچھے گرمیوں کی رخصتوں میں میاں چنوں تک آیا۔ ضمنی طور پر مرزاحمید کا ذکر صرف اس وجہ سے کیا ہے تاکہ ایک قاری قادیان کی فضا سے واقف ہوسکے اور احمدی حقیقت حال سے واقف ہو سکیں اور ان کی آنکھوں سے اندھی عقیدت کی پٹی اتر جائے۔ کسی کی بدنامی مقصود نہیں۔ صرف مقصد اظہار حقیقت ہے۔