احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
انہوں نے تحقیقات شروع کی تو اعتقاد کی دھند چھٹنی شروع ہوئی اور وہ حیران رہ گئے کہ یہاں انہیں کی اولاد پر ہاتھ صاف نہیں ہورہا ہر گھر میں ڈاکہ پڑ رہا ہے۔ اس پر انہوں نے مرزامحمود کو تین پرائیویٹ خطوط لکھے۔ یہ مکاتیب پڑھنے سے پیشتر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ ایک ایسے شخص نے لکھے ہیں جو ایک معاشرہ سے تعلقات منقطع کر کے ایک نئے قادیانی ماحول میں آیا تھا اور ایک لمبے عرصہ کے بعد جب اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی عزت، معاش، اولاد کوئی چیز اس قبائلی نظام میں محفوظ نہیں ہے تو وہ اضطراب اور کرب کی جس کیفیت سے گزرتا ہے اس کا اندازہ اس امر سے ہوسکتا ہے کہ وہ خلیفہ کو بدکار اور زانی سمجھتے ہوئے بھی اسے سیدنا کے لفظ سے خطاب کرتا ہے۔ وہ بعض تحفظات کے وعدہ پر اس ریاست میں اپنی بقیہ زندگی یہ سمجھ کر بھی گزار لینے پر آمادہ ہے کہ میں ایک ایسی ریاست میں رہ رہا ہوں جس کا والی بدچلن ہے۔ یہ چیزیں بتاتی ہیں کہ ایک مخصوص ماحول میں رہتے ہوئے سماجی ومعاشی رشتے انسانی ذہن کی ساخت ایسی بنادیتے ہیں کہ وہ ان علائق کے ٹوٹنے کے خوف سے غیر شعوری طور پر اپنے آپ کو ایسے ’’دلائل‘‘ سے مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے، جن کی حیثیت تار عنکبوت ایسی بھی نہیں ہوتی۔ مرزامحمود سے توبہ کا مطالبہ یا بدکاری کے جواز پر کسی سند کا مانگنا اسی قبیل کی چیزیں ہیں۔ قبائلی سماج کے معروف طریقوں کے مطابق مرزامحمود نے ان کے خلاف اپنے تنخواہ دار ملاؤں سے پروپیگنڈا شروع کروا دیا۔ انہیں قتل کرنے کی دھمکیاں دیں اور مریدوں کی توجہ اپنی زناکاری سے ہٹانے کے لئے اس امر کی تشہیر کی گئی کہ شیخ صاحب موصوف اپنی صاحبزادی کا رشتہ اسے دینا چاہتے تھے۔ مگر جب اس میں ناکامی ہوئی تو الزامات لگانے شروع کر دئیے۔ شیخ صاحب کو جب اصلاح کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو انہیں سمجھ آگئی کہ معیشت، ماحول اور لایعنی عقائد کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے مجبور مریدوں سے سچ بولنے اور صداقت کی حمایت کرنے کی توقع کرنا حماقت ہے۔ اس پر انہوں نے چوبیس گھنٹے کا نوٹس دے کر خلیفہ سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اب آپ وہ خطوط ملاحظہ فرمائیں۔ (نوٹ: یہ خطوط احتساب قادیانیت جلد۵۸ میں شائع ہوچکے ہیں۔ اس لئے یہاں سے حذف کر دئیے ہیں۔ مرتب!)