احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
تھا کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ تھوڑے وقفے کے بعد جب مجھے کوکین والا پان لاکر دیا گیا اور ساتھ ہی یہ ہدایت نامہ بھی کہ مریم کے پاس مت جانا، اسے مطمئن کرنا تمہارے لئے ممکن نہ ہوگا۔ قمی کے پاس جانا، وہ تمہاری شاگرد ہے اور شاگرد ویسے بھی استاد سے دبتا ہے۔ اس لئے تم اس سے خوب نپٹ لو گے۔ اسی دوران مجھے نذیر ڈرائیور سے یہ بھی معلوم ہوچکا تھا کہ مرزامحمود بہت خوش ہے کہ میں بھی زیر دام آگیا ہوں اور اس نے کہا: ’’یہ اب پھنسا ہے۔‘‘ گو اب میرا یقین تو ڈانواں ڈول ہورہا تھا۔ لیکن پھر بھی میں نے اتمام حجت کی خاطر مزید آگے جانے کا تہیہ کر لیا اور مصلح الدین سعدی کی معیت میں کمرۂ خاص کی طرف روانہ ہوا۔ میرا ’’راہبر‘‘ بھی سوچ رہا ہوگا ؎ کارواں غولان صحرائی کو رہبر مان کر ہوچکا گمراہ گمراہی کو منزل جان کر ابھی کچھ زینے باقی تھے کہ میرے گائیڈ نے مجھے کہا کہ حضرت صاحب کو کچھ لوگ ملنے آگئے ہیں۔ تھوڑی دیر ٹھہر جائیں۔ اتناکہہ کر وہ اوپر چلا گیااور میں ڈاکٹر حشمت اﷲ کے کمرہ میں بیٹھ گیا۔ قریباً نصف گھنٹے کے بعد مصلح الدین سعدی واپس لوٹا تو اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ اس نے آتے ہی مجھ سے کہا ماسٹر صاحب آپ اس سلسلہ میں اور لوگوں سے بھی باتیں کرتے رہے ہیں۔ اب انجام کے لئے تیارہو جائیں۔‘‘ تب یہ عقدہ کھلا کہ اس خلوت کدہ میں جانے کے لئے ایک ہی Source استعمال ہوسکتا تھا۔ کیونکہ مختلف ذرائع استعمال کرنے سے راز کھل جانے کا اندیشہ بھی تھا اور یہ فکر بھی کہ یہ لوگ کہیں اس عشرت کدے سے باہر بھی اپنا تعلق قائم نہ کر لیں۔ اس کے ساتھ ہی ’’واقفان سر خلافت‘‘ کی گفتگو میں سرد مہری اور تہدید غالب آگئی۔ ہسپتال میں مرزامحمود کے حکم پر میری پٹی، بند کر دی گئی تاکہ میں T.B of The Spine سے صحت یاب نہ ہوں اور مر جاؤں اور اس راز کو افشانہ کر سکوں۔ اس طرح مجھے مرزامحمود کو اس کے ’’حواریوں‘‘ کی بدمعاشی سے آگاہ کرنے کی حسرت ہی رہی۔ البتہ خود مذہب کے پردہ میں ہونے والی جنسی یورشوں اور ان میں مرزامحمود اور اس کے خاندان اور ساتھیوں کے ملوث ہونے کا ایسا قطعی علم ہوا کہ میرے لئے اس فضا میں رہنا دو بھر ہوگیا۔ واپس گھر آیاتو دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا۔ اعتقادات کی عمارتیں زمین بوس ہوچکی تھیں۔ جس شخص کے لئے مسلسل پانچ سال تک تہجد میں دعائیں کرتا رہا۔ اسے فداہ ابی وامی کہتا رہا وہ اس قدر بدکردار نکلاکہ اس کا مثیل تلاش