احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
نے ایک نوجوان سے کہا: اندر ایک لڑکی ہے۔ جاؤ اس سے دل بہلاؤ۔ وہ اندر گیا اور اس کی چھاتی سے کھیلنا چاہا۔ اس لڑکی نے مزاحمت کی اور وہ نوجوان بے نیل مرام واپس لوٹ آیا۔ مرزامحمود نے اس نوجوان کو کہا: تم بڑے وحشی ہو۔ اس نوجوان نے جواباً کہا کہ اگر جسم کے ان ابھاروں کو مسلا نہ جائے تو مزہ خاک ہوگا۔ مرزامحمود نے کہا: لڑکی کی اس مدافعت کا سبب یہ ہے کہ وہ اپنی چھاتیوں کی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لئے یہ نہیں چاہتی کہ اس کے نشیب وفراز کا تناسب بدل جائے۔ گناہ کا آغاز حکیم صاحب اپنا واقعہ آغاز گناہ صیغہ غیب میں بیان کرتے ہیں: ’’ایک دفعہ مرزامحمود احمد کی بیوی مریم نے ایک نوجوان کو خط لکھا کہ فلاں وقت عبادت گاہ مبارک (قادیان) کی چھت سے ملحقہ کمرہ کے پاس آکر دروازہ کھٹکھٹانا تو میں تمہیں اندر بلالوں گی۔ دروازہ کھلا تو اس نوجوان کی حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی۔ جب اس نے دیکھا کہ بیگم صاحبہ ریشم میں ملبوس سولہ سنگھار کئے موجود تھیں۔ا س نوجوان نے کبھی کوئی عورت نہ دیکھی تھی۔ چہ جائیکہ ایسی خوبصورت عورت۔ وہ مبہوت ہوگیا۔ اس نوجوان نے کہا کہ اجازت ہے۔ اس نے جواب دیا۔ ایسی باتیں پوچھ کر کی جاتی ہیں۔ اس وقت نوجوان نے کچھ نہ کیا۔ کیونکہ اس کے جذبہ شہوت اس قدر مشتعل ہوچکا تھا۔ اس نے سوچا کہ اس وقت کنارہ کرنا ہی بہتر ہے۔چنانچہ بے نیل مرام واپس آگیا۔ بیگم صاحبہ موصوفہ نے اس خط کی واپسی کا مطالبہ کیا جو اس نوجوان کو لکھا تھا۔ اس نوجوان نے جواب دیا کہ میں نے اس کو تلف کر دیا ہے۔ تقسیم ملک کے بعد مرزامحمود احمد کے پرائیویٹ سیکرٹری میاں محمد یوسف اس نوجوان کے پاس آئے۔ کہا: میں نے سنا ہے کہ آپ کے پاس حضور کی بیوی کے خطوط ہیں اور آپ اس کو چھاپنا چاہتے ہیں۔ اس نوجوان نے جواب دیا: بہت افسوس ہے کہ آپ کو اپنی بیوی پر اعتماد ہوگا اور مجھے بھی اپنی بیوی پر اعتماد ہے۔ اگرکسی پر اعتماد نہیں تو وہ حضور کی بیویاں ہیں۔‘‘ (دریافت پر کہا وہ نوجوان میں ہی تھا) ۶… ’’مرزامحمود احمد نے اپنی ایک صاحبزادی کو رشد وبلوغت تک پہنچنے سے پیشتر ہی اپنی ہوس رانی کا نشانہ بنا ڈالا۔ وہ بے چاری بیہوش ہوگئی۔ جس پر اس کی ماں نے کہا: اتنی جلدی کیا تھی، ایک دو سال ٹھہر جاتے۔ یہ کہیں بھاگی جارہی تھی یا تمہارے پاس کوئی اور عورت نہ تھی۔‘‘ دواخانہ نورالدین کے انچارج جناب اکرم بٹ کاکہنا ہے کہ میں نے حکیم صاحب سے پوچھا: یہ صاحبزادی کون تھی؟ تو انہوں نے بتایا۔ ’’امتہ الرشید۔‘‘ ’’اسے دوسرا ہی توڑے اور دوسرا ہی کھائے۔‘‘