احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
کی طرف متوجہ ہوا۔ مگر وہاں سے بھی اس کو قومی فنڈ پر قبضہ نہ ملا اور صرف ایک قلیل گذارہ دیا گیا اور اس کی حالت ناچاری کی یہاں تک پہنچ گئی کہ اس کے حبشی نوکر اس کو اٹھا اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پر رکھتے تھے اور سخت تکلیف اور دکھ کی زندگی وہ بسر کرتا تھا۔ اس کی تکلیف اور دکھ کو دیکھ کر اس کے دو چار ملنے والوں نے جو ابھی تک اس سے ملتے تھے مشورہ دیا کہ وہ اپنا علاج کروائے۔ مگر وہ علاج کروانے سے اس بناء پر انکار کرتا تھا کہ لوگ کہیں گے کہ یہ لوگوں کو علاج سے منع کرتا تھا اور خود علاج کراتا ہے۔ آخر جب اس کے ایک لاکھ مریدوں میں سے صرف دو سو کے قریب باقی رہ گئے اور عدالتوں میں بھی ناکامی ہوئی اور بیماری کی بھی تکلیف بڑھ گئی تو وہ ان تکالیف کو برداشت نہ کر سکا اور پاگل ہوگیا اور ایک دن اس کے چند مرید اس کا وعظ سننے کے لئے گئے تو انہوں نے دیکھا کہ اس کے تمام جسم پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں۔ اس نے ان سے کہا کہ اس کا نام جیری ہے اور وہ ساری رات شیطان سے لڑتا رہا اور اس جنگ میں اس کا جرنیل مارا گیا ہے اور وہ خود زخمی ہوگیا ہے ۔اس پر ان لوگوں کو یقین ہوگیا کہ یہ شخص بالکل پاگل ہو گیا ہے اور وہ بھی اس کو چھوڑ گئے۔‘‘ کس قدر عبرت انگیز واقعہ ہے جو میاں محمود احمد نے اپنے قلم سے لکھا ہے۔ لیکن یہ امر اور بھی عبرت انگیز ہے کہ آج خود میاں محمود احمد پر بعینہ وہی کیفیت طاری ہے جو ڈاکٹر ڈوئی پر وارد ہوئی تھی۔ اس میں شک نہیں کہ میاں صاحب کا دعویٰ رسالت ونبوت کا نہیں، ڈوئی عیسائی اور رسول کریمﷺ کا سخت ترین دشمن تھا۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ میاں صاحب نے آج سے سولہ سترہ برس پہلے مؤکد بعذاب حلف اٹھا کر بڑی تحدّی کے ساتھ یہ دعویٰ کیا تھا کہ: ’’میں اس واحد وقہار خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے اور جس پر افتراء کرنے والا اس کے عذاب سے کبھی بچ نہیں سکتا کہ خدا نے مجھے اس شہر لاہور ۱۳۔ٹمپل روڈ پر شیخ بشیراحمدصاحب ایڈووکیٹ کے مکان میں یہ خبر دی کہ میں ہی مصلح موعود کی پیش گوئی کا مصداق ہوں اور میں ہی مصلح موعود ہوں۔ جس کے ذریعہ سے اسلام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا اور توحید دنیا میں قائم ہوگی۔‘‘ میاں صاحب کے اس مؤکد بعذاب حلف پر ابھی گیارہ برس بھی گذرنے نہ پائے تھے کہ انہیں اسی فالج کی بیماری نے آن پکڑا۔ جو ڈوئی کو لاحق ہوئی تھی اور آج ان کی جو کچھ حالت ہے وہ خود ان کے فرزند ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب نے مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کی ہے: ’’اعصابی بے چینی بصورت نسیان اور جذبات کی شدت یعنی رقت جو مقدس ہستیوں یا مقدس مقامات کے ذکر پر عموماً پیدا ہو جاتی ہے۔ کم وبیش جاری ہے۔ چند دن ان علامتوں میں قدرے