احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
صاحب ایڈووکیٹ سرگودھا اور میرے لڑکے شفیق الرحمن خان نے صاحبزادہ مرزارفیع احمد صاحب سے خط وکتابت اس بارے میں کی جو کہ چھپ کر تقسیم ہوچکی ہے۔ نومبر کے مہینے میں خاکسار لاہور گیا۔ اپنے ضروری کام سے فارغ ہونے کے بعد دل میں خیال آیا کہ مرزاعبدالحق صاحب سے سرگودھا جاکر ملاقات کروں۔ چنانچہ میں سید غلام اکبر شاہ صاحب کے ہمراہ سرگودھا پہنچا اور مرزاعبدالحق صاحب ایڈووکیٹ کی کوٹھی پر عصر کی نماز مرزاعبدالحق کے ساتھ ادا کی۔ ان کے دریافت کرنے پر خاکسار نے عرض کیا میرا نام عبدالرحمان ہے اور خاکسار نے ہی آپ سے خلیفہ ثانی کے متعلق خط وکتابت کی تھی۔مگر آپ نے میرے شبہات کا ازالہ نہیں کیا۔ اس لئے میں خود ہی جناب کی خدمت میں تحقیق حق کے لئے حاضر ہوا ہوں۔ ایک خط میں آپ نے مجھے سرگودھا آنے کی دعوت دی تھی۔ اس کے بعد مرزا نے کہا کہ میں نے کلب جانا ہے۔ خاکسار نے عرض کی کہ کلب جانا کوئی اتنا ضروری نہیں جتنا دینی کام کی اہمیت ہوتی ہے۔ خاکسار نے بہتیرا ان کو کہا۔ مگر وہ ماننے کے لئے تیار نہ ہوئے اور کئی دفعہ اٹھ اٹھ کر کلب کو جانے کے لئے تیار ہو جاتے۔ آخر کار مجبور ہوکر مرزا نے کہا کہ آپ کل صبح آٹھ بجے میرے پاس آنا اور میں آپ کی تشفی کرادوں گا۔ کیونکہ میرے پاس لائبریری ہے۔ میں نے کہا کہ مرزا صاحب یہ کوئی کتابی مسئلہ نہیں ہے جو آپ مجھے کتب سے دکھائیں گے۔ یہ تو ایک سیدھی سادی بات ہے کہ خلیفہ ثانی کی ذات گرامی پر ان کے مریدوں نے زنا کا الزام لگایا تھا یا نہ؟ اس بارہ میں آپ کی بیوی صاحبہ کی شمولیت بھی ضروری ہے۔ جیسا کہ آپ کی بیوی نے آپ کو بتایا اور آپ اپنے پیر خلیفہ صاحب کے پاس تشریف لے گئے تھے۔ میں صرف یہی چاہتا ہوں کہ خلیفہ ثانی نے آپ کی تسلی کس طرح کرائی تھی۔ جس طرح خلیفہ صاحب نے آپ کی تشفی کرائی تھی اسی طرح سے آپ ہماری بھی تشفی کر دیں۔ مگر مرزا نے ایک نہ مانی اور مجھے اور میرے ساتھی کو چھوڑ کر چلتے بنے اور چلتے چلتے یہ فرماگئے کہ کل صبح آٹھ بجے آنا۔ خاکسار نے کہا کہ جس طرح آج آپ نے ہمارے ساتھ برتاؤ کیا ہے کل بھی اسی طرح سے کریں گے؟ دوسرے دن صبح ساڑھے سات بجے ہم دونوں ان کی کوٹھی پر پہنچے مگر مرزاعبدالحق موجود نہ تھے۔ ان کی کوٹھی کے مالی سے ہم نے دریافت کیا کہ مرزا صاحب کہاں ہیں؟ اس نے کہا