احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
ہے۔ مرزارفیع احمد نے یہ تحریر کر کے ایک بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کیا۔ اس میں تو صرف حضرت عائشہؓ صدیقہ کی بریت کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ ایسی صورت میں چارگواہ پیش ہونے چاہیں۔ یاد رہے کہ چارگواہ کی شرط سزا کے نفاذ کے لئے رکھی گئی ہے اور جہاں صرف بچے اور چھوٹے کی تمیز کرنا مقصود ہو وہاں چار گواہ نہیں صرف مباہلہ رکھا گیا۔ جیسا کہ میں آگے چل کر ثابت کروں گا۔ رہا چار گواہوں کی شہادت درکنار، ہم چار چھوڑ تیس گواہ پیش کر سکتے ہیں اور یہ گواہ ہم پیش بھی کر چکے ہیں۔ اب ہم مرزاغلام احمد قادیانی کے چند ایک حوالہ جات ذیل میں درج کرتے ہیں۔ جن سے یہ بات عیاں ہے کہ سچے اور جھوٹے کی تمیز کے لئے مباہلہ ضروری ہے۔ مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ۱… ’’مباہلہ صرف ایسے شخصوں سے ہوتا ہے جو اپنے قول کی قطع اور یقین پر بناء رکھ کر کس دوسرے کو مفتری اور زانی قرار دیتے ہیں۔‘‘ (الحکم مورخہ ۲۴؍مارچ ۱۹۰۲ء) ۲… دوم اس ظالم کے ساتھ جو بے جا تہمت کسی پر لگا کر اس کو ذلیل کرنا چاہتا ہے۔ مثلاً ایک مستورہ عورت کوکہتا ہے کہ میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ عورت زانیہ ہے۔ کیونکہ میں نے بچشم خود اس کو زنا کرتے دیکھا ہے یا بچشم خود اس کو شراب پیتے دیکھا ہے تو اس حالت میں بھی مباہلہ جائز ہے۔ کیونکہ اس جگہ کوئی اجتہادی اختلاف نہیں۔ کیونکہ ایک شخص اپنے یقین اور رؤیت پر بناء رکھ کر ایک مؤمن بھائی کو ذلت پہنچانا چاہتا ہے۔ (الحکم مورخہ ۲۴؍مارچ ۱۹۰۲ء) ۳… ’’یہ تو اسی قسم کی بات ہے جیسے کوئی کسی کی نسبت یہ کہے کہ میں نے اسے بچشم خود زنا کرتے دیکھا ہے۔ اگر میں اس بے بنیاد افتراء کے لئے مباہلہ نہ کرتا تو اور کیا کرتا۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۲ ص۳، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۱۳) مرزارفیع احمد صاحب کو اپنے باپ کی طرح قرآن دانی پر بڑا ناز معلوم ہوتا ہے اور وہ اپنے باپ کی طرح ہر کس وناکس کو لاعلم قرار دینے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ ان کی خدمت میں بہ حوالہ جات پیش کر کے گذارش کرتا ہوں کہ یہ تحریریں ان کے دادا بزرگوار کی ہیں۔ جن کو مجدد صدی چار دہم ہونے کا دعویٰ تھا اور مرزارفیع احمد کے خیالات کے مطابق نبوت کا۔ انہوں نے تو اس سورۂ نور کی آیت ۱۲،۱۳ کی موجودگی میں زنا کا الزام لگنے پر مباہلہ کو ہی جائز قرار دیا ہے اور یہاں تک لکھ دیا ہے کہ مباہلہ لئے ضروری ہے۔ کیونکہ اس جگہ کوئی اجتہادی اختلاف نہیں۔ گویا جب اجتہادی اختلاف نہ ہو تو مباہلہ کرنا ہی برأت کا راستہ ہے۔ لیکن موجودہ دور کے قرآن دان سورۂ نور کو پیش کر کے اپنے دادا کی تحریروں کو وقعت نہیں دیتے۔ حالانکہ جماعت احمدیہ کے ساتھ جو