احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
۲… ’’اب میں ۶۸سال کا ہوں اور فالج کی بیماری کا شکارہوں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۴؍اگست ۱۹۵۶ء) ۳… ’’پچھلے سال اکتوبر میں جابہ سے واپسی پر میری بیماری کی تکلیف کچھ اس طرح بڑھ گئی تھی کہ معلوم ہوتا تھا کہ فالج میں اضافہ ہورہا ہے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۵؍فروری ۱۹۵۸ء) ان بینہ ثبوتوں کے بعد بھی اگر مرزا (عبدالحق) ایڈووکیٹ صاحب کی سمجھ میں بات نہ آئے کہ خداتعالیٰ کا سلوک ان کے خلیفہ ثانی کے ساتھ ایک مفتری بمثل ڈوئی تھا، نہ کسی مصلح کی طرح تھا، تو اس کا علاج سوائے خدا کے اور کسی کے پاس نہیں۔ خدا کا سلوک تو ایسا عبرتناک ہے جس کی مثال دنیا میں نہیں مل سکتی۔ مرزاقادیانی نے لکھا کہ: ’’جھوٹا دعویٰ کرنے والا ۳۳سال کے اندر اندر مارا جاتا ہے اور ۲۳سال زندہ نہیں رہ سکتا۔‘‘ چنانچہ مرزاقادیانی کے اس حوالہ کو جو (اربعین نمبر۳ ص۲، خزائن ج۱۷ ص۳۸۷ ملخص) میں ہے پیش کر کے ہم نے اپنے ٹریکٹ ایک قادیانی دوست کا خط اور اس کے جواب میں لکھا تھا کہ میاں صاحب ۲۳سال کے عرصہ کے اندر اندر قہر اور غضب الٰہی کا شکار ہوگئے ہیں۔ چنانچہ مرزاقادیانی کی تحریر کے مطابق جھوٹا دعویٰ مصلح کرنے کے سبب وہ ۲۳سال کے اندر راہی ملک بقاء ہوگئے۔ یاد رہے کہ محمود احمد نے دعویٰ مصلح موعود ایک حلفیہ بیان کے تحت یکم؍مارچ ۱۹۴۴ء کو کیا تھا۔ اس کے مطابق ان کو اٹھائیس فروری ۱۹۶۷ء سے قبل وفات پاجانا ضروری تھا۔ چنانچہ وہ آٹھ نومبر ۱۹۶۶ء کو وفات پاگئے اور مرزاقادیانی کے اس الہام کو بھی پورا کر گئے جو (تذکرہ ص۱۸۰) پر درج ہے اور جس کے الفاظ یہ ہیں۔ ’’کلب یموت علیٰ کلب‘‘ اس حوالہ کی رو سے بقول مرزاقادیانی ایسے شخص کا ۵۲سال کے اندر اندر فوت ہونا ضروری تھا۔ مرزاقادیانی اگر بہ نظر غور دیکھیں تو ان کو معلوم ہو جائے گا کہ خداتعالیٰ کا ان کے ساتھ وہی سلوک تھا جو وہ ازل سے لے کر ابد تک مفتریوں کے ساتھ کرتا چلا آیا ہے۔ میاں محمود احمد کا اپنا قدم زمین پر نہ رکھ سکنے اور ڈاکٹروں کے لا علاج کر دینے کا ثبوت ان کے لڑکے ڈاکٹر مرزامنور احمد صاحب ایم۔بی۔بی۔ایس کی زبانی ملاحظہ فرمائیں۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۳ء اس کے بعد میں مرزارفیع احمد کے خط کے بارے میں کچھ تحریر کرنا چاہتا ہوں۔ انہوںنے لکھا ہے کہ خداتعالیٰ نے قرآن شریف سورۂ نور کی آیت ۱۲،۱۳ میں محمود احمد کی بریت کی