احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
چونکہ مرزامحمود اس وقت تک حکومت پاکستان کی گرفت سے محفوظ ہے اور ابھی تک حکومت اس کی حکومت درحکومت کو برداشت کر رہی ہے اور اسے مظلوم انسانوں کو خلیفہ ربوہ کے جوروستم سے نجات دلانے کا احساس نہیں ہوا۔ اس لئے یہ ستم رسیدہ عاجز ان چند سطور کے ذریعہ اس ظلم وستم کی داستان کو ان معزز حکام بالا کی خدمت میں پیش کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے جو وقتاً فوقتاً پاکستان کے ہر شہری کو شہری آزادی اور شہری حقوق عطاء کئے جانے کا یقین دلاتے رہتے ہیں۔ مرزامحمود کے جو رستم کاقصہ کوئی نئی داستان نہیں۔ بلکہ اس کا سلسلہ ۱۹۱۴ء سے جاری ہے۔ جب آنجناب نے خلافت کی گدی سنبھالی۔ ظلم وستم کا پہلا وار جماعت کے ان مقتدر ذی اثر مخلص اور اہل علم اصحاب پر ہوا جن کی قادیان میں موجودگی مرزامحمود کے راستہ میں سد راہ تھی۔ کیونکہ وہ خلیفہ کی علمی قابلیت اور اخلاق وکردار سے واقف تھے۔ چنانچہ ان سب کو دہشت انگیزی کے ذریعہ شہر بدر کر دیا گیا۔ خلیفہ اوّل مولانا حکیم نورالدین صاحب کے صاحبزادے میاں عبدالحئی صاحب کی پراسرار موت کے بعد ان کے باقی خاندان کو ذلیل وخوار کرنے کے جو طور طریقے اختیار کئے گئے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کچھ زیادہ عرصہ گذرنے نہ پایا کہ مولانا محفوظ الحق علمی اور ان کے ساتھیوں کو قادیان سے نکال دیا گیا۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا۔ مرزامحمود کے حوصلے بلند ہوتے گئے اور قتل وغارت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مولانا عبدالکریم صاحب مباہلہ پر قاتلانہ حملے، ان کی بلڈنگ کو نذر آتش کرنا اور حاجی محمد حسین صاحب کا قتل ودیگر واقعات تو اس درجہ مشہور ہیں کہ ان کو دہرانے کی ضرورت ہی نہیں۔ جماعت قادیان کے چوٹی کے عالم مولانا عبدالرحمن صاحب مصری اور منشی فخرالدین صاحب ملتانی حکیم عبدالعزیز صاحب، مجاہد بخارا محمد امین خان کی داستان مظلومیت اور ملتانی صاحب کا دن دہاڑے قتل ودیگر واقعات کی تفصیلات میں ہم نہیں جانا چاہتے۔ کیونکہ یہ واقعات اس زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کو دور غلامی کا نام دیا جاتا ہے اور اس دور میں مرزامحمود اپنے پیشہ جاسوسی کی بدولت انگریز کو خوش کرنے میں کامیاب تھا اور اس وقت کے اکثر حکام مرزامحمود کی چاپلوسی اور خوشامد سے متأثر ہوکر اس کی پردہ پوشی کیا کرتے تھے۔ لیکن وہ وقت بیت گیا اور اب ہم ایک جمہوری نظام کے تحت اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اگر اس وقت بھی ہماری معروضات پر توجہ نہ دی گئی اور میرے ایسے مظلوم پاکستانی شہریوں کو مرزامحمودکے چنگل سے نجات نہ دلائی گئی تو یہ امران اصولوں سے انحراف ہوگا۔ جو ایک جمہوری ملک کے طرۂ امتیاز ہیں۔