احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
پیش لفظ راقم الحروف بانی سلسلہ احمدیہ مرزاغلام احمد قادیانی کے دعاوی کی صداقت کے متعلق ایک عرصے سے جستجو میں مصروف رہا۔ ان کی تصانیف اور ان کے دوسرے کارہائے نمایاں جو اعداء اسلام کے مقابل ہیں۔ انہوں نے سرانجام دئیے۔ وہ کاشف شکوک وظنون ہوئے۔ لیکن ایک سنگ راہ بدستور رہا۔ وہ آنجناب کے فرزند اکبر مرزامحمود احمد صاحب کا کردار وہ بڑے ذہین اور فطین انسان تھے۔ بہت عمدہ مقرر تھے۔ اعلیٰ درجے کے منتظم تھے۔ انہوں نے اپنے رنگ میں جماعت کو پروان چڑھایا۔ تنظیم میں ایک قسم کی بیداری پیدا کی۔ لیکن اپنی تقاریر وبیانات اور دعاوی سے ابتلاء بھی پیدا کئے۔ جماعت کی تنظیم اور اس کی اطاعت سے جو پیرپرستی سے بھی تجاوز کر گئی تھی۔ ان کی شخصیت کو بڑا فروغ حاصل ہوا۔ لیکن ان کے بعض جارہانہ دعاوی جماعت کے لئے زنجیر پاء بن جاتے رہے۔ لیکن سب سے زیادہ ابتلاء انگیز ان کے ذاتی کردار کا معاملہ تھا۔ سنگین الزامات سے ان کا گریز اور فرار جماعت کے اہل تقویٰ اور دوسرے جو یائے حق لوگوں کے لئے ایک معمہ بنا رہا۔ مجھے اس بات نے مرزاقادیانی کا حلقہ بگوش ہونے سے باز رکھا۔ آخر کار میں نے اور میرے لڑکے نے ان کے صاحبزادے مرزارفیع احمد اور جماعت ربوہ کے صوبائی امیر مرزاعبدالحق صاحب سے خط وکتابت شروع کی۔ اوّل الذکر سے اس لئے کہ بیٹا باپ کے لئے بہت غیور ہوتا ہے۔ چونکہ میری جستجو کا سارا مدار مؤکد بالعذاب حلف پر تھا۔ مجھے یقین تھا کہ مرزارفیع احمد صاحب بلا حیل وحجت اپنے والد بزرگوار کی برأت میں حلف کے لئے تیار ہوجائیں گے اور میرے لئے راستہ صاف کر دیں گے۔ مثلاً میں خود اپنے والد بزرگوار کے کردار کی پاکیزگی کے متعلق سنگین سے سنگین حلف اٹھانے سے گریز نہیں کروں گا۔ جب دل کا معاملہ اس ایک نقطہ پر آکر ٹھہرا کہ وہ قسم کھائیں اور میں جماعت میں شامل ہو جاؤں تو تأمل کا کوئی جواز نہیں رہتا۔ مؤخر الذکر بزرگ سے میں اس لئے مخاطب ہوا کہ الزامات کی موج تند جولاں ان کے گھر سے اٹھی اور قادیانی خلافت کے نہنگوں کے نشیمن تہ وبالا ہوئے۔ مرزاعبدالحق صاحب کے سسرال خم ٹھونک کر باہر آگئے۔ دعوت مباہلہ سے للکارا۔ کیونکہ ان کو اپنی عزیزہ کی بات پر پورا پورا یقین تھا۔ کسی کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ محض جھوٹ کی خاطر اتنی قربانیاں دے۔ جتنی ان کے سسرال نے دیں۔ جھوٹ اور سچ کا ایک امتیازی نشان یہ رہا ہے کہ انسان سچ کے لئے جان پر کھیل جاتا ہے۔ لیکن جھوٹ کے لئے معمولی سردرد سے بھی گریز کرتا ہے۔ علاوہ ازیں کون ہوشمند انسان اپنی عزیزہ کی بدکاری کا ڈھنڈھورا دیتا ہے کہ پیر کو زانی ثابت کیا جائے۔