احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
بسم اﷲ الرحمن الرحیم مکرمی ومحترمی السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ! آپ اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ قوموں کی زندگی میں سب سے زیادہ نازک وقت وہ ہوتا ہے جب وہ غلامی کی خواب گراں سے بیدار ہوکر آزادی کے لئے تلملاتی ہیں اور آنا فاناً ہی ان کے قلب وذہن میں کچھ کر گزرنے کے جذبات موجیں مارنے لگتے ہیں۔ ایسے لمحات میں غلاموں کی بیڑیوں کی چھنک دشمنان شعور وآگہی کے لئے بانگ دراہی نہیں تیغ قضا بن جاتی ہیں اور ان کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں۔ انہیں اپنے ظلم وستم، جبر وتشدد اور مکروفریب کے سارے جال ٹوٹتے نہاد آقاؤں کو بالآخر اپنے کئے کا حساب دینا پڑتا ہے۔ اس وقت سے لے کر جب حضرت بلالؓ نے اپنے دل میں ایمان کی پہلی کرن پھوٹنے پر اپنے مالک کے حکم سے سرتابی کرتے ہوئے ایک مسلمان غلام پر کوڑے برسانے سے انکار کیا تھا۔ تاایں دم یہی سلسلہ جاری ہے اور کرۂ ارض سے ہر قسم کی غلامی کے مٹنے اور اس کے ہر گوشے میں محمد عربی کے پھریرے لہرانے تک چراغ مصطفوی وشرار بولہبی کی یہ کشمکش جاری رہے گی۔ اس پس منظر میں برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں نے ایک بھرپور انگڑائی لیتے ہوئے خوابوں کی دنیا کو الوداع کہنے کی تیاریاں شروع کیں تو فرنگی اقتدار کے رنگ محل میں ہلچل مچ گئی اور انہوں نے اپنے آزمودہ ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں میں تشتت وافتراق کو ہوا دینے، حریت پسندوں پر دزنداں واکرنے اور انہیں معاش سے محروم کر کے اپنے قدموں پر جھکانے کی ہر سعی کر ڈالی۔ لیکن اس دوانے بھی کچھ کام نہ کیا تو دانش فرنگ نے پیغمبر آخرالزمانﷺ کے درمان فیض سے امت مسلمہ کو علیحدہ کرنے کی سازش کرتے ہوئے اپنے ایک پرانے نمک خوار سے جعلی نبوت کا دعویٰ کروا کے مسلمانوں کا رخ مدینہ سے موڑ کر قادیان کی طرف کرنے کا ناٹک رچایا اور یہ نبی تاج برطانیہ کاکچھ اتنا وفادار اور اتنا غلامی پسند تھا کہ اس کے ذہن میں یہ بات سرے سے موجود ہی نہیں تھی کہ نبی کا کام لوگوں کو طوق وسلاسل سے آزاد کر کے ایک باوقار قوم کے طور پر کھڑا کرنا ہوتا ہے۔ سو وہ تمام سلسلہ انبیاء کی انقلابی تاریخ کو طاق نسیاں پر رکھتے ہوئے مسلمانوں کو الہامی بنیادوں پر غلامی کو آزادی پر ترجیح دینے کا درس دیتے ہوئے بڑی ڈھٹائی سے یہ راگ الاپتا رہا ؎