احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
موصوف نے یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے ایک ایم۔ایس۔سی دوست سے بھی مسلسل فیض یاب ہوتے رہتے ہیں اور انہیں اس بات پر خصوصی حیرت ہے کہ مرد وزن اور دو مردوں کے درمیان جنسی مراسم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کیونکہ سارا پراسس بالکل ایک جیسا ہے۔ پھر پتہ نہیںلوگ ایک کو جائز اور دوسرے کو ناجائز کیوں سمجھتے ہیں؟ انہوں نے فن طفل تراشی کی کراہت کو کم کرنے کے لئے یہ بھی بتایا کہ مجید احمد سیالکوٹی مربی سلسلہ نے انہیں دوران تعلیم ہی ’’سلوک‘‘ کی ان منازل سے کچھ آگاہی بخشتے ہوئے کہا تھا کہ میر داؤد احمد آنجہانی سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ جو ’’حضرت مصلح موعود مرزامحمود احمد خلیفہ ثانی‘‘ کے نہایت قریبی عزیز اور میر محمد اسحاق کے بیٹے تھے۔ انہیں بھی اس خاندانی علت المشائخ سے حصہ وافر ملا تھا اور موصوف (مجید احمد سیالکوٹی) کو افسر جلسہ سالانہ میر داؤد احمد کے ساتھ کئی سال تک پرنسپل اسسٹنٹ کے طور پر ڈیوٹی دیتے ہوئے بعض بڑے نادر تجربات ہوئے اور اسی تعلق میں انہوں نے یہ بھی بتایا: ’’ایسے ہی ایک موقع پر رات کے پچھلے پیر جب سب اپنی اپنی ڈیوٹی سے تھک ہار کر سستانے کے لئے لیٹے تو میرداؤد احمد نے میرے شجر حیات کو پکڑ کر اپنی رانوں کے درمیان رکھ لیا اور اسی عالم میں میں نے ان سے یہ وعدہ لیا کہ وہ مجھے اندرون ملک مربی بنا کر نہیں رکھیں گے بلکہ کسی بیرونی ملک میں بھجوا دیں گے اور پھر انہوں نے اپنا یہ وعدہ پورا کر دیا۔‘‘ راقم یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ مجھے فنون کثیفہ کی اس صنف کے ایک اور ماہر جامعہ احمدیہ کے پرانے طالب علم صادق سدھو نے بتایا کہ میر داؤد احمد انہیں تخلیہ میں بلاکراکثر پوچھا کرتے تھے کہ تم سلسلہ اغلامیات کے یہ مرحلے کس طریقے سے طے کرتے ہو۔ اس پس منظر میں یہ کہنا نامناسب نہ ہوگا کہ ان کمزور لمحات میں اگر مجید احمد سیالکوٹی میرداؤد احمد سے کچھ اور بھی منوالیتے تو شاید وہ اس سے بھی انکار نہ کرتے اور یوں قادیانی کام شاستر کے کچھ نئے آسن بھی سامنے آجاتے۔ خیر یہ چند جملے تو یونہی طوالت اختیار کر گئے۔ تذکرہ ہورہا تھا آغا سیف اﷲ صاحب کا جو آج کل قادیانی امت کے ناقوس خصوصی ’’الفضل‘‘ کے پبلشر ہیں۔ انہوں نے راقم الحروف کو خود بتایا کہ ان کی اہلیہ جو ’’خاندان نبوت‘‘ سے بڑی عقیدت رکھتی ہیں۔ ایک مرتبہ خلیفہ ثانی کے اس ’’حرم پاک‘‘ سے ملنے گئیں۔ جو ’’بشریٰ مہر آپا‘‘ کے نام سے معروف ہیں تو جب تکلفات سے بے نیاز ہوکر کھلی ڈلی گفتگو شروع ہوئی تو موصوفہ نے کسی لگی لپٹی کے بغیر کہا کہ ان کا تورحم ہی موجود نہیں ہے۔ یہ رحم کس طرح ’’معجزانہ‘‘ طور پر غائب ہوا تھا اور عصمت کے اس ویرانے میں کس