احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
سائیکلوں والے میرے عشق کے سودائی تھے سبھی استاد میرے وصل کے شیدائی تھے ان میں اکثر میرے ظاہر میں بڑے بھائی تھے مجھ سے پیش آتا تھا اچھی طرح کالج کا سٹاف اور اکثر میرا ہو جاتا تھا جرمانہ معاف میرے استاد مجھے ہاتھ میں لانے کے لئے رات کو گھر پہ بلاتے تھے پڑھانے کے لئے کوششیں کرتے تھے پھر گھر پہ سلانے کے لئے عشق کا راز اندھیرے میں بتانے کے لئے میں وفادار وہیں رات کو سو جاتا تھا پاس ہر سال بڑی شان سے ہو جاتا تھا ہائے افسوس مگر اب وہ زمانہ نہ رہا ایک بھی حسن کے زنّار میں دانا نہ رہا اب آنا نہ رہا مجھ کو بلانا نہ رہا دعوتوں میں مجھے منت سے بٹھانا نہ رہا دیکھتا کوئی نہیں اب مجھے بادیدۂ ناز ہائے سب بھول گئے اب میری الطاف و نیاز شمع نے خوب جلاکر میرے پروانوں کو بے نیازی کا سبق دے دیا دیوانوں کو کوئی کہتا تھا میرے گھر پہ ذرا کل آنا چائے بھی پینا وہیں، کھانا وہیں پر کھانا میٹھی باتوں سے ذرا دل بھی میرا بہلانا جان من ﷲ مجھے اور نہ اب ترسانا کل کو آنے کے لئے لیں ابھی سائیکل لے لیں اپنے مجنوں سے خدا کے لئے محمل لے لیں ورنہ اک روز گلا کاٹ کے مر جاؤں گا خود کشی کر کے زمانے سے گزر چکا ہوں گا مسکرا کر میں کہا کرتا تھا اچھا اچھا اشک آنکھوں میں یہ کیسے ہیں یہ رونا کیسا کل فلاں پل پہ سرشام ملاقات سہی آپ کے صدمہ فرقت کی مکافات سہی جن کے سبب حسرت وارماں نکالے میں نے جن کو کرنے نہ دئے ہجر میں نالے میں نے جن کے دل حسن کی آغوش میں پالے میں نے خواب گاہوں میں کئے جن کی اجالے میں نے چھیڑتے ہیں وہ میرا کھینچ کے دامن الٹا دے رہے ہیں میرے احسانوں کا بدلہ الٹا شیو دو بار صبح و شام کراتا ہوں میں جڑھ سے مونچھوں کو بھی ہر روز اڑاتا ہوں میں گال پہ سرخی و پوڈر بھی لگاتا ہوں میں لوگ چالاک مگر راز سمجھ جاتے ہیں اک بناوٹ ہے میرا ناز سمجھ جاتے ہیں ہائے بالوں نے میرا گلشن جوبن لوٹا روسیاہیوں نے میرے حسن کا خرمن لوٹا اے خدا حسن کا سرسبز گلستاں کر دے میرے رخسار کے ہر بال کو پنہاں کر دے پھر زمانے میں مجھے شاہ حسیناں کر دے پھر میرے واسطے عالم کو پریشاں کر دے پھر میری وادی پرخار میں آ جائے بہار پھر میرے عشق کے ہو جائیں ہزاروں بیمار ض … ٭ … ض