احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
ربوہ کے تعلیمی اداروں میں ایسی گھاتیں اور وارداتیں بکثرت ہوتی ہیں۔ ربوہ میں قادیانی امت کے شعراء کی اکثر بیشتر نظمیں اس قدر گندی اور اتنی غلیظ ہیں کہ ان کو نقل کرنا بھی بارخاطر ہے۔ یہ غلاظت ان کے قلب وذہن میں اس طرح جاگزین ہوئی ہے کہ وہ اپنے ’’نبی صاحب‘‘ کو بھی معاف نہیں کرتے۔ مرزاغلام احمد کا ایک شعر ہے ؎ کس قدر ظاہر ہے نور اس مبداء الانوار کا بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا ایک قادیانی اپنے مزاج کے مطابق اس کی پیروڈی یوں کہتا ہے ؎ کس قدر ظاہر نور اس مبداء الانوار کا جس پہ میں مرتا ہوں وہ لونڈا ہے تھانیدار کا ہم علیٰ وجہ البصیرت اپنی رویت عینی اور علم قطعی کی بناء پر جانتے ہیں کہ ربوہ میں سدومیت اس پیمانے پر ہے کہ اگر خدا نے ربوہ کو تباہ نہ کیا تو اسے سدوم اور عمورہ کی بستیوں سے معذرت کرنا پڑے گی۔ اس کی صداقت کی شہادت ہر وہ شخص دے گا جس کو ربوہ کے احوال وظروف سے ذرا سی بھی واقفیت ہے۔ نو عمر طلبہ کو پھانسنے کے لئے ایک نظم وہاں ماہرین نے لکھ رکھی ہے جو وہ امردوں کو سنا کر انہیں مائل بہ کرم کرتے ہیں۔ اس نظم کے چند بند پیش خدمت ہیں ؎؎ ذکر ماضی پہ ہے دنیا کا سبھی دارومدار روز ہیں عہد گزشتہ کے ہی ذکر و اذکار فطرتاً یاد گزشتہ سے ہے انسان کو پیار میں بے چارہ بھی ہوا ہوں اسی عادت کا شکار یاد گزرا ہوا آتا ہے زمانہ ہر دم دل کے پہلو میں ہے ماضی کا سینما ہر دم یاد آتے ہیں وہ دن جب کہ مسیحا میں تھا کشور عشق میں جب حسن کا داور میں تھا کہیں شیریں کہیں عذرا کہیں لیلیٰ میں تھا شوخیاں بلکہ مجھے حسن سکھا دیتا تھا میرے عشاق کے نمبر کو بڑھا دیتا تھا آئے دن میرے لئے جنگ ہوا کرتے تھے روز عاشق میرے آپس میں لڑا کرتے تھے پٹ کے بھی ترک نہ کرتے تھے خریدار مجھے یاد کرتے تھے مرے عاشق بیمار مجھے جو کہ عشاق سے پر تھی وہ گلی میری تھی جو کئی بار کھلی تھی وہ کلی میری تھی ہر طرف شہر میں اک شور تھا برپا میرا خوب تھا کوچہ وبازار میں چرچا میرا سب مجھے جلوہ گہ شان خدا کہتے تھے اور زاہد مجھے بیت اﷲ نما کہتے تھے ٹانگے والے میرے جلوے کے تمنائی تھے