تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیا۔ اور سلطان صلاح الدین نے بیت المقدس کو عیسائیوں کے قبضے سے نکالنے کی کوشش شروع کی ۵۸۳ھ میں سلطان صلاح الدین نے ایک جنگ عظیم کے بعد بیت المقدس کے عیسائی بادشاہ کو میدان جنگ میں گرفتار کر لیا اور پھر اس سے یہ اقرار لے کر کہ وہ سلطان کے مقابلے میں نہ آئے گا چھوڑ دیا۔ اس کے بعد عکہ پر قبضہ کیا اور ۵۸۸ھ میں بیت المقدس کو فتح کر لیا ۴۹۰ھ سے ۵۸۸ھ تک یعنی ۹۸ سال کے قریب بیت المقدس عیسائیوں کے قبضے میں رہا۔ عیسائیوں نے جب بیت المقدس کو مسلمانوں سے فتح کیا تھا تو مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہا دی تھیں لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی نے جب اس مقدس شہر کو عیسائیوں سے فتح کیا تو کسی عیسائی باشندے کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ بیت المقدس کی فتح کا حال سن کر تمام براعظم یورپ میں ایک حشر برپا ہو گیا اور گھر گھر کہرام مچ گیا۔ چنانچہ فلپ بادشاہ فرانس‘ رچرڈ شیر دل بادشاہ انگلستان‘ فریڈرک بادشاہ جرمنی اور بہت سے چھوٹے چھوٹے بادشاہ۔ نواب اور امراء لشکر عظیم لے کر متفقہ طور پر تمام براعظم ایشیاء کو فتح کر کے اسلام کا نام و نشان مٹانے کے ارادے سے حملہ آور ہوئے۔ عیسائی افواج جرار کا یہ سمندر اس طرح متلاطم ہوا اور اس شان و شوکت کے ساتھ ملک شام کی طرف بڑھا کہ بظاہر براعظم ایشیاء کی خیر نظر نہیں آتی تھی مگر حیرت ہوتی ہے کہ سلطان صلاح الدین نے چار سال تک کئی سو لڑائیاں لڑ کر عیسائیوں کے اس بے پایاں لشکر کو خاک و خون میں ملایا اور اپنے سامنے سے بھگایا مگر بیت المقدس کی دیواروں تک نہیں پہنچنے دیا۔ آخر ناکام و نامراد یہ عیسائی سلاطین نہایت ذلت کے ساتھ واپس ہوئے۔ اور سلطان صلاح الدین نے عیسائیوں کو یہ رعایت عطا کی کہ وہ اگر بیت المقدس میں محض زیارت کے لئے آئیں تو عیسائیوں کو کسی قسم کی روک ٹوک نہ کی جائے گی۔ ان مذکورہ لڑائیوں میں صلاح الدین نے جس شرافت و انسانیت کا برتائو کیا اور جس شجاعت و جفاکشی کا اظہار اس سے ہوا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج تک بھی تمام یورپ سلطان صلاح الدین کو عزت و عظمت کے ساتھ یاد کرتا اور اس کے نام کو شجاعت و شرافت کا مترادف سمجھتا ہے۔ حالانکہ سلطان صلاح الدین ہی نے تمام براعظم یورپ کو اس کے مقصد وحید میں ناکام و نامراد رکھ کر واپس بھگایا تھا۔ ۵۸۹ھ میں سلطان صلاح الدین نے وفات پائی اور اپنے تقوے اور زہد و ورع کے سبب اولیاء اللہ میں اس کا شمار ہوا۔ صلاح الدین ایوبی کی وفات کے بعد اس کا بیٹا عثمان المقلب بہ الملک العزیز تخت نشین ہوا۔ اس نے چھ سال نہایت نیک نامی کے ساتھ حکومت کی۔ ۵۹۵ھ میں جب فوت ہوا تو اس کی جگہ اس کا بیٹا ملک منصور تخت نشین ہوا۔ مگر ایک سال کے بعد معزول ہوا تو اس کے بعد ملک عادل سلطان صلاح الدین کا بھائی تخت نشین ہوا۔ یہ بڑا نیک اور قابل ستائش سلطان تھا۔ اس نے ۶۱۵ھ میں وفات پائی۔ اس کی جگہ اس کا بیٹا ملک عادل ابوبکر تخت نشین ہوا۔ دو برس کے بعد امرائے مصر نے اس کو محبوس کر کے اس کے بھائی ملک صالح بن ملک کامل کو مصر کے تخت پر بٹھایا اس نے دس سال حکومت کی۔ آخر عیسائیوں کی لڑائی میں شہید ہوا۔ اس کے بعد ملک معظم توران شاہ بن ملک صالح ۶۴۷ھ میں تخت نشین ہوا۔ مگر چند ہی مہینے کی حکومت کے بعد مقتول توران شاہ بن ملک صالح ۶۴۷ھ میں تخت نشین ہوا مگر چند ہی مہینے کی حکومت کے بعد مقتول ہوا۔ اس کے بعد ملکہ شجرۃ الدر اور چند مہینے کی حکومت کے بعد وہ بھی تخت سلطنت سے جدا