تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوا۔ سلطان سنجر سلجوقی چار سال تک ترکان غز کی قید میں رہا۔ یہ قید اسی قسم کی تھی۔ جیسے کہ ہندوستان کا بادشاہ جہانگیر مہابت خان کی قید میں تھا۔ یعنی ترکان غزون کے وقت سلطان سنجر کو تخت پر بٹھاتے اور اس کے سامنے مؤدبانہ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے۔ اور رات کے وقت اس کو ایک آہنی قفس میں بند کر دیتے۔ سلطان سنجر ہی کو اپنا بادشاہ اور سلطان مانتے اور جہاں چاہتے اپنے ساتھ اس کو لیے پھرتے تھے۔ سلطان سنجر کے قید ہونے کے بعد علائو الدین غوری نے بہرام غزنوی کو بے دخل کر کے غزنی پر بھی قبضہ کر لیا۔ اور چند روز کے بعد اپنی موت سے مر گیا۔ علائو الدین غوری کو دولت غوریہ کا پہلا خود مختار سمجھنا چاہیے اس کی وفات کے بعد اس کا بیٹا سیف الدین ثانی غور کے تخت پر بیٹھا اور ڈیڑھ سال کے قریب حکومت کر کے ترکان غز کی ایک لڑائی میں اپنے ہی ایک سردار کے ہاتھ سے مارا گیا۔ اس کے بعد علائو الدین غوری کا بھتیجا غیاث الدین غوری تخت نشین ہوا۔ اس کا ایک بھائی شہاب الدین غوری تھا۔ وہ بھی اپنے بھائی کے ساتھ اسی طرح حکومت و سلطنت میں شریک تھا۔ جس طرح طغرل بیگ سلجوقی اور چغر بیگ سلجوقی دونوں بھائی مل کر حکومت کرتے تھے۔ غیاث الدین و شہاب الدین دونوں بڑے اتفاق و محبت سے رہتے تھے۔ اور دونوں بادشاہ سمجھے جاتے تھے۔ شہاب الدین غوری اپنے بڑے بھائی غیاث الدین غوری کو اپنا آقا سمجھتا اور اس کے ہر ایک منشاء کو پورا کرنا اپنا فرض جانتا تھا۔ خراسان کے ملک کا اکثر حصہ اپنی حکومت میں شامل کرنے کے بعد غوریوں نے ہندوستان کی طرف توجہ کی۔ کیونکہ وہ اپنے آپ کو سلطنت غزنوی کا جانشین سمجھتے اور جس قدر ملک سلطان محمود غزنوی کے قبضے میں تھا۔ اس تمام ملک کو قبضہ میں لانا اپنا جائز حق سمجھتے تھے۔ پنجاب میں بہرام غزنوی کی اولاد حکمران تھی۔ چنانچہ اس سے پنجاب کا ملک چھین لینا انہوں نے ضروری سمجھا اور شہاب الدین غوری نے ۵۸۲ھ میں خسر و ملک غزنوی کو لاہور سے گرفتار کر کے اپنے بھائی غیاث الدین غوری کے پاس غور کی طرف بھیج دیا۔ اور خود دارالسلطنت لاہور پر قابض و متصرف ہوا۔ ۵۹۹ھ میں غیاث الدین غوری کا انتقال ہوا اور اس کی جگہ اس کا بھائی شہاب الدین غوری فیروز کوہ میں تخت نشین ہوا۔ غیاث الدین غوری کے عہد حیات میں شہاب الدین غوری ہندوستان کے راجہ پرتھوی راج کو شکست دے کر اور گرفتار کر کے قتل کر چکا تھا۔ اب جب کہ وہ فیروز کوہ میں غور کے تخت پر بیٹھا تو ہندوستان میں اس کی طرف سے اس کا بیٹا غلام قطب الدین ایبک فرماں روا تھا۔ اپنی بادشاہت کے زمانے میں سلطان شہاب الدین غوری ایک مرتبہ ہندوستان آیا ہوا تھا۔ یہاں سے واپس غور کی طرف جا رہا تھا۔ کہ ۶۰۲ھ میں فدائیوں یا گکھڑوں کے ہاتھ سے اپنے خیمے میں رات کے وقت دھوکے سے شہید کیا گیا۔ شہاب الدین غوری کی وفات کے بعد دولت غوریہ کا شیرازہ درہم برہم ہو گیا۔ ہندوستان میں قطب الدین ایبک مستقل بادشاہ اور خاندان غلافان کی سلطنت کا بانی ہوا۔ اور فیروز کوہ کے تخت پر اس کا بھتیجا سلطان محمود غوری ابن غیاث الدین غوری متمکن ہوا۔ ۶۰۷ھ میں محمود غوری بھی مقتول ہوا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا بہائو الدین تخت نشین ہوا۔ جس کو خوارزم شاہ نے قید کر لیا۔ اس کے بعد اس کے خاندان کے متوسلین نے یکے بعد دیگرے برائے نام غور میں حکومت کی اور بہت جلد اس خاندان کا خاتمہ ہو گیا۔