تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے قتل ہونے کے لئے بے گناہ چھوڑ دیا۔ سلطان جلال الدین جمعیت فراہم کر کے چنگیز خان کے مقابلہ پر مستعد ہو گیا۔ مگر بدقسمتی سے اس جمعیت میں بعض ایسے سردار موجود تھے۔ جو عین وقت پر دھوکا دے کر مغلوں سے جا ملے اور سلطان جلال الدین کے پاس صرف سات سو آدمی رہ گئے۔ انہی سے لڑتا بھڑتا دریائے سندھ کے ساحل کی طرف سلطان جلال الدین متوجہ ہوا۔ چنگیز خان بھی اپنا لشکر عظیم لئے ہوئے وہاں پہنچ گیا۔ جلال الدین نے دریائے سندھ کو اپنی پشت پر رکھ کر لشکر مغول کا مقابلہ کیا۔ مغلوں نے کمان کی شکل میں محاصرہ کر کے ہنگامۂ کار زار گرم کیا۔ مگر جلال الدین نے اس بہادری اور جواں مردی کے ساتھ مقابلہ کیا کہ چنگیز خان اور اس کی لاتعداد فوج کے دانت کھٹے کر دئیے۔ سلطان جلال الدین جب حملہ آور ہوتا تھا۔ مغلوں کی صفوں کو دور تک پیچھے ہٹا دیتا تھا۔ مگر وہ پھر فراہم ہو کر بڑھتے اور پہلے سے زیادہ جوش کے ساتھ حملہ آور ہوتے تھے۔ اپنی جمعیت کی قلت اور دشمنوں کی کثرت کے سبب اس معرکہ آرائی میں سلطان جلال الدین کو کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ مگر سلطان جلال الدین کی شجاعت و بہادری کا سکہ چنگیز خان کے دل پر بیٹھ گیا۔ یہاں تک کہ ان کے سات سو بہادروں میں سے بھی جب صرف ایک سو کے قریب باقی رہ گئے۔ تو سلطان جلال الدین نے اپنی زرہ اتار کر پھینک دی اور اپنا تاج ہاتھ میں لے کر گھوڑا دریائے سندھ میں ڈال دیا۔ اس کے بقیہ ہمراہیوں نے بھی اپنے سلطان کی تقلید کی۔ چنگیز خاں نے چاہا کہ مغلوں کا لشکر بھی اس کا تعاقب کرے اور اس بہادر شخص کو گرفتار کر کے لائے۔ لیکن اس بحر ذخار میں گھوڑا ڈالنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ چنانچہ چنگیز خان اور مغل دریائے سندھ کے کنارے پر رک گئے۔ اور دریائے سندھ کے اندر ان مٹھی بھر بہادروں پر تیروں کا مینہ برساتے رہے۔ یہاں تک صرف سات آدمی معہ سلطان جلال الدین کے کنارے پر پہنچ گئے۔ باقی سب دریا کے اندر مغلوں کے تیروں سے شہید ہو گئے۔ سلطان جلال الدین نے اس کنارے پر پہنچ کر اپنے کپڑے اتار کر جھاڑیوں پر سکھانے کے لئے ڈال دئیے۔ نیزہ زمین پر گاڑ کر اس کی نوک پر اپنا تاج رکھ دیا۔ اور اس کے نیچے دم لینے لگا۔ اور گھوڑے کے زین کو اتار کر خشک ہونے کے لئے سامنے رکھ دیا۔ چنگیز خان دوسرے کنارے پر کھڑا ہوا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ اور حیران تھا۔ اپنے تمام بیٹوں اور سرداروں کو جو اس کے لشکر میں موجود تھے۔ سامنے بلا کر کہنے لگا کہ میں نے آج تک ایسا بہادر اور باہمت شخص نہیں دیکھا۔ اس کے ہمراہی بھی اس کی مانند بے نظیر بہادر ہیں۔ اتنے بڑے عظیم الشان دریا کو اس طرح عبور کرنا بھی انہی کا کام تھا۔ اگر یہ شخص زندہ رہا تو مجھ کو اندیشہ ہے کہ دنیا سے مغلوں کا نام و نشان گم کر دے گا۔ جس طرح ممکن ہو۔ اس کے قتل کرنے کی تدبیر سوچی جائے۔ مگر بجز اس کے اور کچھ نہیں ہو سکتا تھا کہ چنگیز خان متاسف و مغموم دریائے سندھ کے کنارے سے واپس چلا گیا۔ یہ واقعہ ۶۲۰ھ کو وقوع پذیر ہوا۔ اس کے بعد سلطان جلال الدین نے سندھ میں کچھ فتوحات حاصل کیں اور اس کے ہوا خواہ یہاں آ آ کر اس کے ساتھ شامل ہوتے رہے۔ چند روز کے بعد سلطان جلال الدین دریا کو عبور کر کے کرمان کی جانب پہنچا وہاں سے شیراز گیا۔ اسی عرصہ میں فدائیوں کو متواتر ہزیمتیں دے کر ان کے قریباً تمام قلعوں کو سوائے قلعہ الموت کے منہدم کر دیا۔ فدائی یا باطنی گروہ مغلوں کی اس حملہ آوری کے وقت بہت مطمئن اور مسرور تھے۔ اور مسلمانوں کے قتل عام کی خبریں سن کر یہ لوگ بہت خوش ہو رہے تھے۔ چونکہ یہ لوگ