تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فوجیں بحری و بری راستے سے بڑی تعداد میں آ کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوئیں۔ اور مسلمانوں کو ان کی لشکر گاہ میں محصور کر لیا۔ کچھ مسلمان جو مقبوضہ شہروں کے انتظام پر مامور تھے۔ انھوں نے یہ خبر سن کر چاہا کہ ہم اپنے محصور بھائیوں سے جا ملیں۔ مگر عیسائیوں کے محاصرے کو نہ توڑ سکے۔ اور باہر ہی ادھر ادھر بحالت پریشانی پھرنے لگے۔ اسی حالت محاصرے میں محمد بن ابوالجواری نے وفات پائی۔ مسلمانوں نے فوراً زہیر بن عوف کو اپنا سردار منتخب کر لیا۔ مقام مازر میں مسلمان عرصہ دراز تک اسی حالت محاصرہ میں رہے۔ اتفاقاً اندلس سے ایک بیڑہ جنگی جہازوں کا بقصد جہاد نکلا ہوا تھا۔ اور بحر روم میں گشت کر رہا تھا۔ صقلیہ کے ان مسلمانوں کو جو محاصرہ سے باہر تھے۔ یہ حال معلوم ہوا۔ اور انھوں نے اس اندلسی بیڑہ کے قریب پہنچنے پر کسی نہ کسی طرح اسلامی لشکر کی حالت سقیم سے مطلع کیا۔ اس بیڑہ سے فوراً تین سو کشتیاں ساحل صقلیہ پر بھیج دی گئیں۔ اور اندلس کے اسلامی لشکر نے ساحل پر اتر کر عیسائیوں کو مارنا اور قتل کرنا شروع کیا اور عیسائی محاصرہ اٹھا کر فرار ہوئے۔ یہ واقعہ جمادی الآخر ۲۱۵ھ کا ہے۔ مسلمانوں نے اس محاصرے سے آزاد ہوتے ہی پھر فتوحات کا سلسلہ جاری کر دیا۔ اندلسی بیڑہ تو اپنا کام کر کے واپس چلا گیا اور افریقی اسلامی لشکر نے شہر پلرمو کا محاصرہ کر لیا۔ اور مفتوحہ شہروں پر پھر از سر نو حکومت قائم کی۔ اسی عرصہ میں افریقہ سے بھی کمکی فوج کی کشتیاں پہنچ گئیں۔ اس سے پہلے جو فوج اسد بن فرات کے ہمراہ آئی تھی اس کی کل تعداد دس ہزار سات سو تھی۔ جس میں دس ہزار پیدل اور سات سو سوار تھے۔ شہر پلرمو ابھی فتح نہ ہوا تھا کہ ۲۱۸ھ میں افریقہ سے محمد بن عبداللہ بن اغلب یعنی زیادۃ اللہ کا چچا زاد بھائی صقلیہ کا گورنر مقرر ہو کر آیا اور ۲۲۰ھ میں پلرمو اور قصیر مانہ وغیرہ شہروں کو رومیوں سے فتح کر لیا۔ جزیرہ صقلیہ کا نصف جنوبی حصہ مسلمانوں کے قبضے میں تھا اور نصف شمالی حصے میں عیسائیوں کی حکومت قائم تھی اور قیصر روم کی طرف سے برابر امداد پہنچتی رہتی تھی‘ مگر مسلمان برابر اپنی فتوحات کو بڑھاتے اور جزیرہ میں اسلامی حکومت کو وسیع کرتے رہے۔ پلرمو کی فتح کے بعد سے جزیرہ صقلیہ سلطنت اغلبیہ کا ایک صوبہ بن گیا۔ اور وہاں برابر یکے بعد دیگرے قیروان سے گورنر مقرر ہو کر آتے اور حکومت کرتے رہے۔ زیادۃ اللہ کے عہد حکومت کا سب سے بڑا اور شاندار کارنامہ جزیرہ صقلیہ کا حکومت اسلامیہ میں شامل کرنا ہے۔ اس جزیرہ پر قریباً پونے تین سو سال تک مسلمانوں کی حکومت قائم رہی۔ اس کے بعد آپس کی خانہ جنگیوں نے اس جزیرہ کو عیسائیوں کے قبضے میں پہنچا دیا۔ اور انہوں نے جس طرح اندلس سے مسلمانوں کا نام و نشان گم کیا اسی طرح جزیرہ صقلیہ سے بھی مسلمانوں اور ان کے نشانوں کو مٹا دیا۔ (انا للٰہ وانا الیہ راجعون ) وفات زیادۃ اللہ نے ۲۲۳ھ میں وفات پائی۔ اس کی وفات کے بعد اس کا بھائی اغلب بن ابراہیم بن اغلب تخت نشین ہوا۔ اس کی کنیت ابو عقال تھی۔ اغلب بن ابراہیم ابو عقال ابوعقال کی حکومت سے رعایا عام طور پر خوش رہی۔ فوج بھی اس سے خوش تھی۔ اگر کسی نے بغاوت و سر کشی کی تو اس کی سرکوبی کامیابی کے ساتھ کر دی گئی۔ دو برس اور سات مہینے حکومت کرنے کے بعد ابوعقال نے ۲۲۶ھ ماہ ربیع الاول میں وفات