تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خوف تھا۔ کہ کہیں منصور میرا نام و نشان نہ مٹا دے۔ اس لیے اس نے پنج سالہ صلح کی درخواست منظور کرا کر اپنا اطمینان کیا کہ اس عرصہ میں صلیبی مجاہدین فارغ ہو کر میری مدد پر پہنچ سکیں گے۔ خود اندلس کے عیسائی شام و فلسطین کے صلیبی حملوں میں بکثرت شامل ہوتے تھے۔ منصور کی بحری طاقت بھی چونکہ بہت زبردست تھی اس لیے سلطان صلاح الدین ایوبی نے منصور کے پاس اپنا ایک سفیر عبدالرحمن ابن منقذ نامی جو اعلیٰ درجہ کا شاعر بھی تھا بھیجا۔ اور ایک خط منصور کے نام اس سفیر کے ہاتھ روانہ کیا۔ جس میں لکھا تھا کہ عیسائی فوجیں فلسطین پر حملہ آور ہوئی ہیں۔ اس وقت اگر اپنے جنگی جہازوں کو مسلمانوں کی امداد کے لیے بھیجو اور ساحل فلسطین کی حفاظت کے کام میں اعانت کرو۔ تو بڑی آسانی سے عیسائیوں کو شکست دی جا سکتی ہے۔ اس خط میں سلطان صلاح الدین نے منصور کو امیرالمومنین کے خطاب سے مخاطب نہیں کیا تھا۔ کیونکہ سلطان صلاح الدین صرف خلیفہ بغداد ہی کو امیر المومنین خلیفۃ المسلمین سمجھتے تھے۔ اتنی سی بات پر منصور کبیدہ خاطر ہوا۔ ابن منقذ کی بظاہر خوب خاطر مدارات کی۔ اور ایک قصیدے کے صلہ میں ابن منقد کو چالیس ہزار درہم انعام کے دئیے مگر سلطان صلاح الدین نے جو امداد طلب کی تھی اس کے دینے میں لیت و لعل اور پس و پیش کیا۔ الفانسو ثانی بادشاہ طیطلہ پنج سالہ صلح کے دوران میں مسلمانوں کی حملہ آوری سے تو بالکل مطمئن تھا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا۔ کہ مسلمان وعدہ کے خلاف کبھی حملہ آور نہیں ہو سکتے اس عرصہ میں اس نے خوب فوجی تیاریاں کیں۔ دوسرے عیسائی سلاطین کو اپنی مدد کے لیے آمادہ کیا۔ اور اپنی اس تیاری کو بھی مثل صلیبی جنگوں کے مذہبی جہاد قرار دے کر بآسانی ہر قسم کی امداد و اعانت عیسائیوں سے حاصل کی۔ مدت صلح کے گذرنے پر ماہ رجب ۵۹۱ھ میں کئی عیسائی سلاطین اور ان کی فوجوں کو ہمراہ لیے ہوئے مقام مالار کو علاقہ بطلیوس میں پہنچا تھا۔ کہ ادھر سے منصور مقابلہ پر پہنچ گیا۔ بڑے زور شور کی لڑائی ہوئی۔ عیسائیوں کے مقابلے میں اسلامی فوج کی تعداد بہت ہی تھوڑی تھی۔ مگر عیسائی اپنی فوج کے ایک لاکھ ۴۶ ہزار آدمیوں کو قتل اور تیس ہزار کو قید کرا کر میدان جنگ سے فرار ہوئے۔ یہ بہت بڑی اور نہایت عظیم الشان فتح تھی‘ جو منصور کو حاصل ہوئی اور اس نے عیسائیوں کی ہمتوں کو بہت کچھ پست کر دیا۔ اس لڑائی میں ڈیڑھ لاکھ خیمے۔ اسی ہزار گھوڑے‘ ایک لاکھ خچر اور چار لاکھ باربر داری کے گدھے اور ساٹھ ہزار مختلف وضع کے زرہ بکتر مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔ جس سے بآسانی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ عیسائیوں کی تیاریاں کیسی مکمل اور عظیم الشان تھیں۔ اور منصور کے خلاف الفانسو دوم نے کیسی زبردست طاقت فراہم کی تھی۔ منصور نے یہ تمام مال غنیمت جس میں بہت سازر و جواہر بھی شامل تھا۔ سب اپنی فوج میں سپاہیوں کو تقسیم کر دیا۔ الفانسو دوم اس میدان سے بھاگ کر اپنی بقیہ فوج کے ساتھ قلعہ رباح میں پناہ گزیں ہوا۔ منصور بھی پاشنہ کوب پہنچا اور اس قلعے کا محاصرہ کیا۔ الفانسو یہاں سے بھاگ کر طیطلہ میں آیا اور اس شرم انگیز شکست کے غم و غصہ میں سر وریش کو منڈوا ڈالا۔ اور صلیب کو اٹھا کر قسم کھائی کہ جب تک ان لاکھوں عیسائی مقتولوں کا انتقام نہ لے لوں گا۔ اس وقت تک عیش و آرام کو حرام سمجھوں گا۔ منصور کو جب معلوم ہوا کہ الفانسو نے طیطلہ میں جا کر اس طرح قسم کھائی ہے۔ اور وہ دوبارہ جنگی تیاریوں میں مصروف ہے تو وہ بلا توقف طیطلہ پر حملہ آور ہوا اور شہر کا محاصرہ کر کے قلعہ شکن توپوں سے