تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
قاضی کے دربار میں پہنچ کر علانیہ رسول اللہ e کو گالیاں دیں قاضی نے اس کو بھی قتل کرا دیا۔ ان عیسائیوں نے جو اپنے آپ کو قتل ہی کرانے کے لیے مستعد ہو کر آئے تھے یکے بعد دیگرے اپنے آپ کو مستحق قتل قرار دینا اور قتل ہونا شروع کیا تو قاضی اور سلطان کی طرف سے درگذر اور چشم پوشی کا برتائو شروع ہوا۔ عام عیسائیوں میں یہ خیال بڑی آسانی سے یہ لوگ پھیلا سکے کہ جو لوگ اس طرح مقتول ہوتے ہیں وہ ولی کامل اور شاہ ولایت بن جاتے ہیں۔ چنانچہ ان مقتولوں کی قبروں کو زیارت گاہ بنایا گیا اور قرطبہ اور دوسرے مقامات کے جاہل عیسائیوں کی ایک تعداد ان قتل ہونے والے عیسائیوں کی قبروں کو عزت و تکریم کی نگاہوں سے دیکھنے اور ان کی زیارت کرنے کو ثواب سمجھنے لگی۔ شمالی ریاستوں کے عیسائی ان شہیدوں کے مزاروں کی زیارت کو آتے اور خود بھی اسی نا معقول حرکت کا ارتکاب کر کے گرفتار ہو جاتے جب ان شریروں کو مقتل میں لے جایا جاتا تو ہزار ہا آدمی ان کو ولی کامل سمجھ کر ان کا آخری دیدار دیکھنے کو جمع ہو جاتے۔ اس طرح یہ سلسلہ کئی برس تک جاری رہا اور سلطان سخت شش و پنج میں مبتلا رہا کہ اس طوفان بدتمیزی کو کس طرح فرو کیا جائے۔ آخر قرطبہ اور اشبیلیہ وغیرہ کے بڑے بڑے سنجیدہ مزاج پادریوں اور اسقفوں نے ایک عظیم الشان مذہبی مجلس منعقد کی اور ملک اندلس کے تمام بڑے بڑے پادریوں کو اس میں بلا کر یہ مسئلہ پیش کیا کہ آیا مذہب عیسوی کی رو سے مسلمانوں کے پیغمبر e اور ان کی مذہبی کتاب قرآن مجید کو گالیاں دینا ثواب کا کام ہے یا نہیں؟ اور جو لوگ اس طرح مقتول ہو رہے ہیں وہ شہید اور شاہ ولایت کہلانے کے مستحق ہیں یا نہیں؟ اس پر پادریوں نے خوب تقریریں کیں اور اس حرکت کو مذہب عیسوی کے بالکل خلاف قرار دے کر ان لوگوں کو جو اس طرح اپنے آپ کو خطرہ میں ڈالتے اور مقتول ہوتے تھے۔ گناہ کا مرتکب قرار دیا اور یہ عجیب فیصلہ کیا کہ جو لوگ اب تک مقتول ہو ۱؎ عیسائیوں کی تاریخ تو ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ لیکن مسلمانوں نے چاہے وہ کیسے ہی بے عمل ہوں‘ جواباً کبھی عیسیٰu کو گالی گلوچ کا نشانہ نہیں بنایا کیونکہ ان کی نبوت پر ایمان رکھنا ہماری بنیادی عقائد میں سے ایک ہے اور یہ بھی موجود عیسائیت کے باطل ہونے کی ایک دلیل ہے۔ چکے ہیں وہ تو شہید اور شاہ ولایت سمجھے جائیں گے لیکن جو عیسائی اس کے بعد اس حرکت ناشائستہ کا مرتکب ہو گا وہ بدمعاش سمجھا جائے گا اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو گا۔ پادریوں کی کونسل کے اس فیصلے نے اندلسی عیسائیوں کو متاثر کیا۔ لیکن شمالی ریاستوں کے پادری جو اسی غرض کے لیے اپنے آپ کو ایک ولی کامل کی حیثیت سے پیش کرتے تھے اپنی ان حرکات سے باز نہ آئے۔ ایک طرف مسلمانوں کو شکایت تھی کہ سلطان ان عیسائی بد زبانوں کو سزا دینے میں لیت و لعل اور غفلت کرتا ہے اسی لیے ان کے حوصلے بڑھتے جاتے ہیں۔ دوسری طرف عیسائیوں کا جاہل طبقہ اپنے ان پادریوں کو برا کہنے لگا جنھوں نے ان مذہبی شہیدوں کو بدمعاش قرار دیا تھا۔ عیسائیوں اور مسلمانوں کے جو خوشگوار تعلقات ملک میں قائم تھے ان میں کوئی مذہبی منافرت نہیں پائی جاتی تھی وہ کمزور ہونے لگے اور عیسائی مسلم نا اتفاقی پیدا ہونے لگی۔ عیسائیوں کے اس فتنے نے سلطان عبدالرحمن کو اس کی عمر کے آخری پانچ چھ سال میں بہت پریشان اور غمگین رکھا۔ اور اس کی زندگی میں اس عجیب و غریب قسم کے فتنے کا مکمل طور پر سدباب نہ ہو سکا بلکہ اس کا کم و بیش سلسلہ جاری رہا۔