تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے لیے مامور ہے‘ تو ہم کو بلا تکلف مختار کی ماتحتی میں خروج کرنا چاہیئے‘ اور اگر محمدبن حنیفہ نے مامور نہیں کیا ہے اوراس نے ہم کو دھوکہ دیناچاہا ہے تو پھر ہم کو اس سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہیئے‘ چنانچہ اسی وقت سعد بن ابی سعد تین چار اور آدمیوں کو ہمراہ لے کر مدینہ کی طرف روانہ ہوا‘ وہاں پہنچ کر محمد بن حنفیہ سے دریافت کیا‘ تو انہوں نے کہا کہ ہاں مختار کو خون حسین رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے کی ہم نے اجازت دی ہے‘ یہ سن کر سعد بن ابی سعد معہ ہمراہیوں کے کوفہ میں آیا اور سب کو یہ حال سنایا‘ اس خبر کے سنتے ہی لوگ مختار کی بیعت اور متابعت پر آمادہ ہو گئے۔ مختار کو جب معلوم ہوا کہ میری بات کی تصدیق ہوگئی ہے‘ تو وہ بہت خوش ہوا‘ کہ لوگوں کا شک بھی دور ہو گیا‘ مختار نے کہا کہ ہم کو کامیابی حاصل کرنے کے لیے ابراہیم بن مالک بن اشتر کو بھی جو کوفہ کے رئوساء میں شمار ہوتا ہے‘ ضرور شامل کر لینا چاہیئے‘ چنانچہ مختار کے مریدوں میں سے عامر بن شرجیل فوراً ابراہیم بن مالک کے پاس گیا‘ اور کہا کہ تیرے باپ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حمایت میں بڑے بڑے کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں‘ اب لوگوں نے مصمم ارادہ کیا ہے‘ کہ خون حسین رضی اللہ عنہ کا معاوضہ طلب کریں‘ چنانچہ ایک معقول جمعیت اس ارادہ پر متفق ہو چکی ہے۔ تجھ کو تو سب سے پہلے اس کام میں شریک ہونا چاہیئے تھا۔ ابراہیم نے کہا کہ میں اس شرط پر لوگوں کا شریک ہو سکتا ہوں کہ مجھ کو امیر بنایا جائے‘ عامر نے کہا‘ کہ محمد بن حنفیہ در حقیقت ہمارے امام ہیں اور انہوں نے مختار کو اپنا خلیفہ مقرر فرمایا ہے لہٰذا ہم نے مختار کے ہاتھ پر بیعت کی ہے‘ ابراہیم نے کہا کہ اچھا میں خود ہی مختار سے ملوں گا۔ عامر نے واپس آکر یہ حال مختار کو سنایا‘ مختار اگلے دن پندرہ آدمیوں کوہمراہ لے کر خود ابراہیم بن مالک کے مکان پر پہنچا‘ اس وقت ابراہیم مصلے پر بیٹھا تھا‘ مختار نے جاتے ہی کہا کہ تیرا باپ شیعان علی رضی اللہ عنہ میں سے بہت نامور شخص تھا‘ ہم تجھ کو بھی اپنی جماعت میں سے سمجھتے ہیں‘ امام مہدی محمد بن الحنفیہ رضی اللہ عنہ نے مجھ کو اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے‘ تجھ کو میرے ہاتھ پر بیعت کرنی چاہیئے‘ میں وعدہ کرتا ہوں کہ کامیابی کے بعد جو منصب اور عہدہ تو پسند کرے گا‘ تجھ کو دیا جائے گا‘ ہمراہیوں نے اس وعدہ کی ضمانت اور تصدیق کی‘ ابراہیم فوراً اپنے مصلے سے اٹھا‘ اور مختار کو اپنی جگہ بٹھا کر اس کے ہاتھ پر بیعت کی اور مختار بیعت لے کر واپس چلا آیا‘ اگلے روز ۱۴ ربیع الاول ۶۶ھ کو رات کے وقت مختار نے ابراہیم بن مالک کے پاس آدمی بھیجا‘ کہ اس وقت ہم خروج کا ارادہ کر چکے ہیں‘ تم بھی اپنی جمعیت لے کر ہمارے پاس پہنچو‘ ابراہیم کے پاس آدھی رات تک اس کی جماعت کے لوگ آ آکر جمع ہوئے۔ ایاس بن مضارب کو جاسوسوں نے یہ خبر دے دی تھی‘ کہ آج شب میں بغاوت پھوٹنے والی ہے‘ اس نے عبداللہ بن مطیع کو اطلاع دی ‘ عبداللہ بن مطیع نے تدبیر پوچھی تو اس نے مشورہ دیا‘ کہ کوفے کے سات محلے ہیں‘ ہر محلہ میں پانچ سو آدمیوں کا ایک دستہ متعین کر دیا جائے‘ کہ جب اس محلہ میں کسی کو رات کے وقت نکلتے دیکھے‘ گرفتار یا قتل کر دے‘ چنانچہ اس رائے پر عمل ہوا‘ اور ہر محلہ میں ایک ایک سردار بھیج دیا گیا کہ راستوں اور سڑکوں پر لوگوں کو جمع نہ ہونے دیں‘ اتفاقاً جب ابراہیم اپنی جمعیت کو لے کر مختار کی طرف چلا ہے‘ تو راستے میںایاس بن مضارب ہی سے مقابلہ ہو گیا‘ طرفین سے ایک دوسرے پر حملے ہوئے‘ اور ایاس بن مضارب ابراہیم کے ہاتھ مارا گیا۔