تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس خبر کو سن کر حجاج کو اور بھی زیادہ ملال ہوا‘ تیسری مرتبہ اس نے محمد بن قاسم کو جو اس کا داماد بھی تھا‘ اور صرف سترہ سال کی عمر کا نوجوان تھا ۶ ہزار شامی فوج کے ساتھ سندھ کی طرف روانہ کیا‘ محمد بن قاسم رحمہ اللہ تعالی کے ساتھ اس مرتبہ شامی سپاہی اس لیے بھیجے گئے کہ حجاج کو اس بات کا شبہ تھا کہ عراقی و ایرانی سپاہی سندھیوں سے ساز باز رکھتے ہیں‘ محمد بن قاسم نے اول صوبہ مکران کو جس پر سندھیوں نے قبضہ کر رکھا تھا فتح کر کے سندھیوں کو بھگایا‘ دیبل پر آیا اس کو فتح کیا‘ نیرون اور برہمن آباد کی طرف بڑھا‘ راجہ داہر کے پاس نہ صرف ایرانی لوگ ہی پناہ گزین تھے بلکہ بہت سے عرب لوگ بھی جو خلیفہ وقت یا عمال خلافت سے باغی ہو ہو کر بھاگے تھے سندھ میں راجہ داہر کے پاس پناہ گزین تھے‘ اس لیے بھی سندھ پر حملہ کرنا ناگزیر تھا‘ راجہ داہر نے مقابلہ کیا اور مارا گیا‘ اس کے بعد محمد بن قاسم نے یکے بعد دیگرے سندھ کے شہروں کو فتح کرناشروع کیا‘ حتیٰ کے تمام ملک سندھ اور ملتان اس کے ہاتھ پر مفتوح ہوا۔ سندھ کی فتح میں حجاج کی توجہ پورے طور پر محمد بن قاسم کی طرف مبذول رہی‘ روزانہ خبریں منگواتا‘ اور روزانہ محمد بن قاسم کو ہدایات بھیجتا تھا‘ محمد بن قاسم نے اپنے آپ کو سندھیوں کے لیے نہایت شفیق و رحم دل فاتح اور رعایا پرور حکمران ثابت کیا‘ اس نوجوان فتح مند نے جس رواداری‘ بہادری‘ سیر چشمی اور لطف و عطا کا اظہار کیا اس کی مثالیں تاریخ عالم میں بہت ہی کم دستیاب ہو سکتی ہیں‘ محمد بن قاسم کی فتوحات سندھ کا مفصل حال تاریخ ہند میں لکھا جائے گا۔ محمد بن قاسم رحمہ اللہ تعالی ملتان کوفتح کر چکا تھا‘ کہ اس کے پاس حجاج کے فوت ہونے کی خبر پہنچی‘ مگر اس نے اپنی فتوحات کا سلسلہ برابر جاری رکھا اور ۹۶ھ تک بندر سورت سے لے کر ملک کشمیر تک تمام مغربی ہندوستان کو مفتوح و محکوم کر لیا۔ حجاج بن یوسف ثقفی حجاج کے حالات اوپر برابر ذکر ہوتے چلے آئے ہیں‘ ولید بن عبدالملک کے تخت نشین ہوتے ہی حجاج نے یزید بن مہلب کو خراسان کی گورنری سے اور حبیب بن مہلب کو کرمان کی گورنری سے معزول کر کے قید کر دیا تھا‘ پھر مہلب کے تمام بیٹوں کو قید کر دیا‘ یزید معہ اپنے بھائیوں کے قید خانے سے فرار ہو کر فلسطین میں ولید بن عبدالملک کے بھائی سلیمان بن عبدالملک کے پاس پہنچا جو وہاں کا عامل تھا‘ حجاج نے ولید کو یزید بن مہلب کی شکایتیں لکھیں‘ لیکن سلیمان کی سفارش سے یزید بن مہلب اوراس کے بھائیوں سے ولید نے کوئی مواخذہ نہ کیا۔ حجاج کے مزاج کی سختی نے اہل عراق کو پریشان کیا اور اکثر لوگ حجاج سے تنگ آکر عراق سے فرار ہوئے‘ اور مکہ معظمہ و مدینہ منورہ میں جا جا کر مقیم ہوئے‘ وہاں سیدنا عمر بن عبدالعزیز حجاز کے گورنر تھے‘ انہوں نے عراق سے آئے ہوئے ان لوگوں کے ساتھ نیک سلوک کیا‘ ۹۳ھ میں سیدنا عمر بن عبدالعزیز نے ولید کو ایک خط حجاج کی شکایت میں لکھا‘ کہ اس نے اہل عراق کو بہت ستا رکھا ہے اور اپنے ظلم و زیادتی میں حد سے بڑھ گیا ہے‘ حجاج کو جب اس کا حال معلوم ہوا تو اس نے بھی ایک خط سیدنا عمر بن عبدالعزیز کی شکایت میں ولید کو لکھا‘ کہ اکثر فتنہ پرداز اور منافق لوگ عراق سے جلاوطن ہو کر سیدنا عمر بن عبدالعزیز کے پاس چلے جاتے ہیں‘ اور عمر بن عبدالعزیز ان کی گرفتاری سے مانع ہوتے ہیں‘ یہ بات حکومت و سلطنت کے لیے موجب