تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کئی مرتبہ امیر حج کی حیثیت سے حج کیا‘ امارت مدینہ کے زمانہ میں تمام فقہاء و علماء ان کے پاس جمع رہتے تھے۔ فقہائے مدینہ کی ایک کونسل آپ نے بنائی تھی اور ان ہی کے مشورہ سے امورات مہمہ انجام دیتے تھے۔ حجاج کی شکایت پر ۹۳ھ میں ولید نے انہیں امارت مدینہ سے معزول کر کے شام میں بلا لیا‘ جب ولید نے ارادہ کیا کہ اپنے بھائی سلیمان کو ولی عہدی سے معزول کر کے اپنے بیٹے کو ولی عہد بنائے‘ تو حجاج و قتیبہ وغیرہ نے تو ولید کے ارادہ کی تائید کی‘ لیکن دوسرے امراء نے اس کو ناپسند کیا‘ سب سے پہلے جس شخص نے ولید کے اس ارادہ کی تائید اور پرزور مخالفت کی وہ سیدنا عمر بن عبدالعزیز تھے‘ چنانچہ ولید نے ان کو قید کر دیا‘ تین برس تک یہ قید میں رہے‘ پھر کسی کی سفارش سے رہا کر دیئے گئے‘ سلیمان بن عبدالملک اسی لیے عمر بن عبدالعزیز کا بہت شکر گذار و احسان مند تھا۔ چنانچہ اس نے خود خلیفہ ہونے کے بعد ان کو اپنا وزیراعظم بنایا اور مرتے وقت ان کی خلافت کے لیے وصیت لکھ گیا۔ خلافت کا پروانہ جب سلیمان بن عبدالملک کا انتقال ہوا‘ تو رجاء بن حیٰوۃ وابق کی مسجد میں گئے‘ تمام بنو امیہ اوراعیان لشکر کو جمع کیا‘ سر بمہر فرمان ولی عہدی ان کے پاس تھا‘ انہوں نے سب کو خلیفہ کے فوت ہونے کی خبر سنا کر دوبارہ اس ملفوف سر بمہر فرمان پر لوگوں سے بیعت لی‘ پھر سب کے سامنے اس سربمہر فرمان کو کھول کر پڑھا اور لوگوں کو سنایا‘ اس میں سلیمان بن عبدالملک نے لکھا تھا کہ: ’’یہ تحریر بندئہ خدا‘ امیر المومنین‘ سلیمان بن عبدالملک کی طرف سے‘ عمر بن عبدالعزیز کے نام ہے‘ میں نے اپنے بعد تم کو اور تمہارے بعد یزید بن عبدالملک کو خلافت کا ولی عہد مقرر کیا‘ پس لوگوں کو چاہیئے کہ وہ سنیں اور اطاعت کریں اور اللہ سے ڈریں اور آپس میں اختلاف نہ کریں تاکہ دوسروں کو تمہارے مغلوب کرنے کی طمع نہ ہو‘‘۔ اس فرمان کو سن کر ہشام بن عبدالملک نے کہا کہ ہم عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ کریں گے‘ مگر رجاء بن حیٰوۃ نے جرأت سے کام لے کر نہایت سختی سے فوراً جواب دیا کہ میں تمہاری گردن اڑا دوں گا‘ ہشام یہ سن کر خاموش ہو گیا‘ عبدالملک کی اولاد اس وصیت اور فرمان کو اپنی حق تلفی کا موجب سمجھتی تھی‘ لیکن عام طور پر لوگ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے خلیفہ ہونے کو بہت ہی پسند کرتے اور آپ کے سوا کسی دوسرے کا خلیفہ ہونا نہیں چاہتے تھے‘ ادھر عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی کے بعد یزید بن عبدالملک کو چونکہ خلافت کے لیے ولی عہد بنا دیا گیا تھا‘ لہٰذا اولاد عبدالملک کو کسی قدر تسکین بھی ہوتی تھی کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی کے بعد خلافت پھر ہمارے ہی گھرانے میں آجائے گی۔ جب رجاء نے سلیمان کا مذکورہ وصیت نامہ سنایا‘ تو عمر بن عبدالعزیز خلافت کے لیے اپنا نام سن کر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ رہے تھے‘ عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ اس تحریر کو سن کر اپنی جگہ بیٹھے کے بیٹھے رہ گئے‘ رجاء بن حیٰوۃ نے ہاتھ پکڑ کر ان کو اٹھایا اور منبر پر لے جا کر بٹھایا‘ سب سے پہلے ہشام ابن عبدالملک کو بلایا کہ آکر بیعت کرو‘ ہشام بن عبدالملک آیا اور آکر بیعت کی‘ ہشام کی بیعت کے بعد سب لوگوں نے بخوشی خاطر بیعت کی اور کسی نے کسی قسم کی چون و چرا نہ کی۔ بیعت کے بعد سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی نے سلیمان بن عبدالملک کے