تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دیلمیوں نے ۳۲۲ھ سے ۴۴۷ھ تک یعنی قریباً سوا سو سال فارس و عراق پر حکومت کی‘ ان دیلمیوں نے بجائے اس کے کہ کسی بعید ترین صوبہ کو خلیفہ کی حکومت سے جدا کرتے خود خلیفہ اور صوبہ عراق پر اپنا تسلط قائم کر کے حقیقتاً اور معناً خلافت عباسیہ کا خاتمہ کر دیا‘ مگر خلیفہ کا نام اور نام کی خلافت باقی رکھی۔ ان کی وجہ سے خلافت عباسیہ کے وقار و اعتبار کو جو صدمہ پہنچا اس کا حال گذشتہ اور اق میں مجملاً بیان ہو چکا ہے‘ چونکہ یہ لوگ خلافت عباسیہ پر مسلط و مستولی ہو گئے تھے اور خلیفہ انہیں کے ہاتھ میں مثل کٹھ پتلی کے تھا‘ لہٰذا خلفاء عباسیہ کے سلسلہ میں بنو بویہ کا حال اور ان کی حکومت کی کیفیت مسلسل نام بنام بیان کر دی گئی ہے‘ آئندہ اب ان کے تذکرے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ دولت طولونیہ (مصر) ابن طولون کا ذکر اوپر آ چکا ہے‘ بنی طولون نے ۲۵۴ھ سے ۲۹۲ھ تک مصر پر حکومت کی‘ یہ اگرچہ خود مختار تھے‘ اور مصر کا صوبہ گویا ۲۵۴ھ میں خلافت عباسیہ سے جدا ہو چکا تھا‘ مگر مصر میں خطبہ خلیفہ بغداد کے نام کا پڑھا جاتا تھا‘ بنی طولون نے ملک شام کو بھی اپنی حکومت میں شامل کر لیا تھا‘ اس طرح شام و مصر میں ایک ایسی سلطنت قائم ہو گئی تھی‘ جو اگرچہ اپنے آپ کو خلیفہ بغداد کی فرماں بردار بتاتی تھی‘ مگر دربار بغداد کو شام و مصر کی حکومت سے بے تعلق کر دیا تھا۔ دولت اخشیدیہ (مصر و شام) مصر و شام سے جب بنی طولون کی حکومت جاتی رہی‘ تو چند روز کے لیے ان دونوں صوبوں کے حاکم دربار خلافت سے مقرر ہو کر آنے لگے اور بظاہر یہ دونوں صوبے پھر خلافت عباسیہ میں شامل ہو گئے‘ ۳۱۶ھ میں مقتدر باللہ خلیفہ بغداد نے محمد بن طفج کو رملہ کا حاکم مقرر کیا‘ ۳۱۸ھ میں اس کو دمشق کی حکومت سپرد کی گئی اور ۳۲۳ھ میں اس کو مصر کی حکومت دی گئی‘ محمد بن طفج ماوراء النہر کے علاقہ فرغانہ کے قدیمی حکمراں خاندان سے تعلق رکھتا تھا‘ یعنی اس کے بزرگ فرغانہ کے امیر تھے‘ اس زمانہ میں فرغانہ کے امراء کو اخشید کے لقب سے پکارتے تھے‘ محمد بن طفج نے مصر کی حکومت پر فائز ہو کر ۳۲۷ھ میں اپنی خود مختاری کا اعلان کیا اور اپنا لقب اخشید رکھا‘ ۳۳۰ھ میں اس نے شام پر بھی قبضہ کر لیا‘ اور ۳۳۱ھ میں ملک حجاز کو بھی اپنی حکومت میں شامل کر کے ایک عظیم الشان سلطنت قائم کر لی اور ایسا کرنے میں اس کو اس لیے زیادہ دقت پیش نہیں آئی کہ دربار خلافت کو دیلمیوں نے بیکار و بے اثر بنا دیا تھا‘ خلیفہ کا رعب اور خوف دلوں سے مٹ چکا تھا۔ خاندان اخشیدیہ نے ۳۵۶ھ تک ان ملکوں پر حکومت کی‘ اس کے بعد عبیدیوں نے اول مصر کو پھر چند روز کے بعد شام کو بھی فتح کر لیا۔ دولت عبیدیہ (مصر و افریقہ و شام) ۲۹۶ھ میں افریقہ (ٹیونس) کے اندر دولت اغلبیہ کا خاتمہ ہوا‘ اور اس کی جگہ دولت عبید یہ قائم ہوئی‘ دولت عبیدیہ نے ۳۵۶ھ میں خاندان اخشیدیہ کے ایک طفل خورد سال سے مصر کا ملک چھین لیا اور قاہرہ کو اپنا دارالسلطنت قرار دے کر اس کی شہر پناہ تعمیر کرائی‘ ۳۸۱ھ میں عبیدیوں نے حلب پر قبضہ کیا‘ اور بہت جلدان کی سلطنت سرحد مراقش سے شام کے ملک تک وسیع ہو گئی‘ چونکہ عبیدیوں نے قیروان کو چھوڑ کر اپنا دارالحکومت قاہرہ بنا لیا‘ اس لیے بحر روم کے جزیرے اور مغربی اضلاع ان کے قبضے