تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
باپ کے ترکہ سے دس دس لاکھ درہم پائے لیکن میں نے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی کے بیٹوں میں سے ایک کو دیکھا کہ اس نے ایک دن جہاد کے لیے سو گھوڑے دیے اور ہشام کے ایک بیٹے کو دیکھا کہ وہ لوگوں سے صدقہ لے رہا ہے۔ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی کے دور خلافت پر ایک نظر عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی کی خلافت کا زمانہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کی طرح بہت ہی مختصر ہے لیکن جس طرح عہد صدیقی بہت ہی اہم اور قیمتی زمانہ تھا‘ اسی طرح عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی کی خلافت کا زمانہ بھی عالم اسلام کے لیے قیمتی زمانہ تھا۔ بنو امیہ کی حکومت نے بتدریج لوگوں میں دنیا پرستی اور حب جاہ و مال پیدا کر کے آخرت کی طرف سے غفلت پیدا کر دی تھی۔ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی کی چند روزہ خلافت نے یک لخت ان تمام خرابیوں کو دور کر کے مسلمانوں کو پھر روحانیت اور نیکی کی طرف راغب کر دیا۔ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے خلافت اسلامیہ کو خلافت راشدہ کے نمونے پر قائم کر کے عہد صدیقی و عہد فاروقی کو دنیا میں پھر واپس بلا لیا۔ خلفاء کے استبداد اور قہر و جبر کو وہ سخت ناپسند کرتے اور دنیا میں آزادی و امن قائم کر کے ہر شخص کو اس کے انسانی حقوق سے متمتع ہونے کا موقع دینا چاہتے تھے۔ انہوں نے اللہ کے ایک بھی منکر کو مجبور کرنا نہیں چاہا۔ انہوں نے خوارج کو بھی اپنے اظہار خیال کا موقع دیا۔ وہ خلیفۃ المسلمین کا مرتبہ اسی حد تک قائم رکھنا چاہتے تھے کہ اگر کوئی مجرم خلیفہ کو گالی دے تو زیادہ سے زیادہ خلیفہ بھی ویسی ہی گالی اس کو انتقاماً دے سکتا ہے۔ وہ اپنے ماتحتوں سے اس بات کے خواہاں نہ تھے کہ ان کی ہر ایک جائز و ناجائز بات کی تائید کی جائے۔ وہ خلیفہ کو مسلمانوں کا حکمران اور فرماں رواہ نہیں جانتے تھے بلکہ مسلمانوں کا شفیق باپ سمجھتے تھے۔ غرض عہد صدیقی اور فاروقی میں جو جو کچھ ہم نے دیکھا ہے‘ اس کے تمام نمونے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی کے اندر موجود تھے اور اسی لیے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی کے فوت ہونے پر خلافت راشدہ ختم ہو گئی۔ ان کے زمانے میں کثیر التعداد لوگوں نے بطیب خاطر اسلام قبول کیا۔ نو مسلموں کی یہ کثرت کسی دوسرے خلیفہ کے زمانہ میں نظر نہیں آتی۔ حالانکہ آپ کے عہد خلافت میں بہت ہی کم لڑائیاں اور چڑھائیاں ہوئیں۔ آپ کی حکومت و سلطنت کے حدود سندھ‘ پنجاب‘ بخارا‘ ترکستان اور چین سے لے کر مراقش‘ اندلس اور فرانس تک وسیع تھے۔ اتنی بڑی عظیم الشان سلطنت میں ہر جگہ یکساں سکون اور امن و امان موجود تھا۔ آپ کے عہد مبارک میں سڑکیں نکالی گئیں۔ ہر ملک میں مدرسے اور شفاخانے جاری ہوئے‘ عدل و انصاف دنیا نے آپ کے بعد تک کبھی ایسا نہیں دیکھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کے انتقال پر نہ صرف مسلمانوں کے گھروں میں رونا دھونا ہوا بلکہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائی و یہودی سوگوار پائے گئے۔ راہبوں نے آپ کے مرنے کی خبر سن کر اپنے صومعوں اور عبادت خانوں میں سر پیٹ لیے اور کہا کہ آج دنیا سے عدل اٹھ گیا اور عدل کا قائم کرنے والا اور عدل کی حفاظت کرنے والا دنیا کو خالی کر گیا۔ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی نے شیعہ‘ سنی اور خارجی وغیرہ کے تمام اختلافات مٹا دیے اور آج بھی کوئی شخص ایسا نظر نہیں آتا جو عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی کی طرف سے اپنے دل میں کوئی نفرت رکھتا ہو۔ ہر ایک سوچنے اور غور کرنے والے کے