تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لیے موقع ہے کہ سوچے اور غور کرے کہ جو شخص سب سے زیادہ پابند اسلام ہوتا ہے‘ وہی سب سے زیادہ محبوب عالم بن جاتا ہے۔ آخر یہ اسلام کی خوبی نہیں تو اور کیا ہے؟ صدیق اکبر‘ فاروق اعظم رضی اللہ عنھما ‘ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی ‘ نور الدین زنگی رحمہ اللہ تعالی ‘ صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ تعالی کو اہل یورپ بڑی عزت و عظمت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ یہ لوگ اسلام کے کس قدر پابند تھے۔ ان کی تمام خوبیاں صرف اسی ایک بات پر منحصر تھیں کہ وہ سچے پکے مسلمان تھے اور انہوں نے اپنی زندگیوں کو اسلامی نمونے پر قائم رکھنا چاہا تھا۔ ایک طرف ہم سوچتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی دنیا کے بہت بڑے خلیفہ تھے اور دوسری طرف دیکھتے ہیں کہ وہ پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنے ہوئے منبر پر خطبہ دے رہے ہیں تو حیرت و استعجاب کی انتہا نہیں رہتی۔ فرض اور ذمہ داری کے احساس کا اس سے بڑھ کر اور کیا مرتبہ ہو سکتا ہے کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی کی زندگی نہایت عیش و تنعم کی حالت میں بسر ہوئی تھی لیکن خلیفہ ہونے کے بعد صرف اڑھائی سال کے عرصہ میں اس قدر لاغر ہو گئے تھے کہ جسم کی ایک ایک ہڈی الگ الگ گنی جا سکتی تھی۔ یزید بن عبدالملک ابو خالد یزید بن عبدالملک بن مروان اپنے بھائی سلیمان بن عبدالملک کی وصیت کے موافق سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی کے بعد تخت خلافت پر بیٹھا‘ تخت نشین ہونے کے بعد اس نے کہا‘ کہ جتنا میں خدائے تعالیٰ کا محتاج ہوں اس قدر سیدنا عمر بن عبدالعزیز بھی نہ تھے‘ چنانچہ وہ چالیس روز تک سیدنا عمر بن عبدالعزیز ہی کے نقش قدم پر چلا۔ بنو امیہ نے جب دیکھا کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی کے بعد بھی کشود کارکی کوئی صورت پیدا نہ ہوئی‘ تو انہوں نے یزید بن عبدالملک کو اپنے منشاء کے موافق طرز عمل اختیار کرنے کی ترغیب دینے کی کوشش کی‘ اس قسم کی تمام کوششیں سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی کے سامنے تو بے کار ثابت ہوتی رہی تھیں‘ لیکن یزید بن عبدالملک عمر بن عبدالعزیز نہ تھا وہ ایک ذرا سی کوشش کے مقابلہ میں بہہ گیا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ چالیس سفید ریش لوگوں نے حاضر ہو کر اس بات کی شہادت دی کہ خلیفہ وقت جو کچھ کرے اس کا حساب اس سے نہ لیاجائے گا اور نہ اس پر عذاب ہو گا‘ ایسی تدبیروں کاخاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوا‘ اور یزید بن عبدالملک کی جہالت نے اس کو بتدریج یزید اول کی طرح فسق و فجور کی طرف مائل کر دیا‘ حتی کہ وہ شراب و مسکرات کا بھی استعمال کرنے لگا‘ اور یہی سب سے پہلا خلیفہ تھا جس نے علانیہ شراب استعمال کی اور گانے بجانے میں بھی اپنا وقت ضائع کرنے لگا‘ اس کے بعد بنو امیہ کو کافی موقع مل گیا انہوں نے دربار خلافت پر مستولی ہو کر سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی کے زمانہ کی تمام اصلاحات کو منسوخ کرا دیا اور خلافت بنو امیہ کے اسی طرح غاصبانہ طور پر املاک و جاگیرات پر قابض و متصرف ہو گئے‘ اور اس بے انصافی میں پہلے سے زیادہ ترقی کر گئے‘ سیدنا عمر بن عبدالعزیز کے بعد ہی سے خلافت بنو امیہ کے زوال کا زمانہ سمجھنا چاہیئے‘ اسی زمانہ میں بنو عباس اور ہاشمیوں کو بنی امیہ کے خلاف کوششیں اور تدبیریں عمل میں لانے کا موقع مل گیا۔ محمد بن یوسف بردار حجاج بن یوسف ثقفی نے اپنے عہد امارت میں اہل یمن پرایک جدید